(آیت 30)قَالَ الَّذِيْۤ اٰمَنَ يٰقَوْمِ …: ” يَوْمِ “ سے مراد کوئی نادر واقعہ ہوتا ہے جو کسی قوم کو کسی ہولناک عذاب یا اعلیٰ درجے کی نعمت کی صورت میں پیش آیا ہو، مثلاً یوم بدر مسلمانوں کے لیے نعمت اور کفار کے لیے عذاب تھا۔ ” الْاَحْزَابِ “”حِزْبٌ“ کی جمع ہے، وہ جماعتیں جو کسی کی مخالفت میں اکٹھی ہوئی ہوں۔ مرد مومن نے جب فرعون کا موسیٰ علیہ السلام کے قتل کی رائے پر اصرار اور تمام سرداروں کا خاموش رہ کر اس کی تائید کرنا دیکھا تو اس نے مصلحت کا لبادہ اتار کر صریح الفاظ میں ان سے کہا، اے میری قوم! اگر تم نے اللہ کے رسول کو قتل کرنے یا کوئی نقصان پہنچانے کا ارادہ ترک نہ کیا تو میں ڈرتا ہوں کہ تم پر ان جماعتوں پر آنے والے عذابوں جیسا عذاب آ جائے گا جو اپنے انبیاء کے خلاف اکٹھی ہوئیں اور انھیں جھٹلا دیا، پھر تمھاری یہ شان و شوکت اور لاؤ لشکر تمھارے کسی کام نہ آ سکیں گے۔