(آیت 27) ➊ وَ قَالَ مُوْسٰۤى اِنِّيْ عُذْتُ بِرَبِّيْ …: موسیٰ علیہ السلام کو جب اس بات کا علم ہوا کہ فرعون مجھے قتل کرنا چاہتا ہے تو انھوں نے اس کے شر سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگی۔ اللہ تعالیٰ کے خاص بندوں کا یہی شیوہ ہوتا ہے کہ وہ دشمنوں سے بچنے کے لیے اپنے رب کی پناہ طلب کرتے اور اسی پر بھروسا کرتے ہیں۔ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کسی قوم (کے حملے) کا ڈر ہوتا تو (اللہ تعالیٰ سے) یہ دعا کرتے: [ اَللّٰهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِيْ نُحُوْرِهِمْ وَنَعُوْذُ بِكَ مِنْ شُرُوْرِهِمْ ][ أبو داوٗد، الوتر، باب ما یقول الرجل إذا خاف قومًا: ۱۵۳۷، و صححہ الألباني ]”اے اللہ! ہم تجھے ان کے مقابلے میں کرتے ہیں اور ان کی شرارتوں سے تیری پناہ مانگتے ہیں۔“ ابراہیم علیہ السلام کا آگ میں ڈالے جانے کے وقت ”حَسْبِيَ اللّٰهُ وَ نِعْمَ الْوَكِيْلُ“ کہنا اور اصحاب الاخدود والے لڑکے کا ”اَللّٰهُمَّ اكْفِنِيْهِمْ بِمَا شِئْتَ“ کہنا بھی دشمنوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کی بہت عمدہ مثالیں ہیں۔ [ دیکھیے بخاري: ۴۵۶۴۔ مسلم: ۳۰۰۵ ]
➋ عُذْتُ بِرَبِّيْ: مطلب یہ ہے کہ میں اس ذات عالی کی پناہ لے رہا ہوں جس نے میری پرورش کی، مجھے نبوت کے مقام پر فائز کیا، تمام آفات و مصائب سے بچایا اور اتنی نعمتیں عطا کیں جن کا شمار نہیں۔ اس لیے فرعون اور ہر متکبر و جبار ظالم سے بھی مجھے وہی بچائے گا، سو میں اسی کی پناہ لیتا ہوں۔
➌ وَ رَبِّكُمْ: اس میں موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کو سبق دے رہے ہیں کہ ان کی طرح وہ بھی اپنے رب ہی کی پناہ مانگیں۔
➍ مِنْ كُلِّ مُتَكَبِّرٍ: صرف فرعون کے شر سے پناہ مانگنے کے بجائے ہر متکبر کے شر سے پناہ مانگی۔ اس سے معلوم ہوا کہ دعا میں وسعت اور جامعیت ہونی چاہیے، جیسا کہ اس دعا میں ہر دشمن سے پناہ کی درخواست آ گئی ہے، خواہ اس کی عداوت ظاہر ہو یا مخفی اور وہ دشمن اکیلا ہو یا جماعت۔
➎ لَا يُؤْمِنُ بِيَوْمِ الْحِسَابِ: اس سے معلوم ہوا کہ ظلم اور قتلِ ناحق وہی کرتا ہے جو متکبر ہو (یعنی حق کا انکار کرتا ہو اور لوگوں کو حقیر جانتا ہو) اور حساب کے دن کا یقین نہ رکھتا ہو۔ ورنہ جو حق قبول کرنے والا ہو اور اسے باز پرس کا یقین ہو وہ کیسے ظلم کر سکتا ہے۔