(آیت 25) ➊ فَلَمَّا جَآءَهُمْ بِالْحَقِّ مِنْ عِنْدِنَا …: فرعون موسیٰ علیہ السلام کی آمد سے پہلے بنی اسرائیل کے لڑکوں کو قتل کرتا اور ان کی عورتوں کو زندہ رکھتا تھا۔ (دیکھیے قصص: ۴) موسیٰ علیہ السلام کی آمد پر ان کے واضح معجزات دیکھ کر اور جادوگروں کے ساتھ مقابلے میں ناکام ہو کر وہ ایسا مرعوب ہوا کہ اس نے لڑکوں کو قتل کرنے کا سلسلہ روک دیا، مگر دن بدن ایمان لانے والوں میں اضافے کو دیکھ کر اس کے سرداروں نے اسے موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کے خلاف کارروائی پر بھڑکایا۔ اس سے پہلے وہ تمام بنی اسرائیل کے بیٹوں کو قتل کرتے تھے، اب انھوں نے کہا کہ موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے والوں کے بیٹوں کو قتل کرو اور ان کی عورتوں کو زندہ رکھو۔ یہ بات فرعون نے نہیں بلکہ اس کے درباریوں نے کہی، فرعون نے ان سے ایسا کرنے کا وعدہ کر لیا، جیسا کہ سورۂ اعراف میں ہے: «سَنُقَتِّلُ اَبْنَآءَهُمْ وَ نَسْتَحْيٖ نِسَآءَهُمْ» [ الأعراف: ۱۲۷ ]”ہم ضرور ان کے بیٹوں کو بری طرح قتل کریں گے اور ان کی عورتوں کو زندہ رکھیں گے۔“ مگر وہ ایسا نہ کر سکا۔
➋ وَ مَا كَيْدُ الْكٰفِرِيْنَ اِلَّا فِيْ ضَلٰلٍ: اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے ظاہر ہے کہ وہ اپنا ارادہ پورا نہ کر سکا اور اپنے منصوبے میں بھی ناکام رہا۔ قحط سالیوں، پیداوار کی کمی اور طوفان، ٹڈیوں، جوؤں، مینڈکوں اور خون کے پے در پے عذابوں نے اسے دم ہی نہیں لینے دیا کہ وہ دوبارہ یہ کام کر سکتا، حتیٰ کہ اسے اس کی قوم سمیت سمندر میں غرق کر دیا گیا۔ مزید دیکھیے سورۂ اعراف (۱۳۰ تا ۱۳۶)۔