(آیت 24) ➊ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَ هَامٰنَ وَ قَارُوْنَ:”فرعون“ اس زمانے میں مصر کے بادشاہ کا لقب ہوا کرتا تھا، ہامان اس کا وزیر تھا اور قارون سرمایہ دار منافق تھا، جو موسیٰ علیہ السلام کی قوم میں سے ہونے کے باوجود فرعون کا ساتھی بن گیا تھا۔ (دیکھیے قصص: ۷۶ تا ۸۲) موسیٰ علیہ السلام مصر کے تمام قبطیوں کی طرف بھیجے گئے تھے، مگر ان تینوں کا ذکر اس لیے فرمایا کہ یہ اپنی قوم کے سردار اور موسیٰ علیہ السلام کے خلاف سازشیں کرنے میں پیش پیش تھے، باقی لوگ ان کے پیروکار تھے۔
➋ فَقَالُوْا سٰحِرٌ كَذَّابٌ: موسیٰ علیہ السلام کے واضح معجزات عصا اور ید بیضا کا ان کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ موسیٰ علیہ السلام اور ان کے معجزات کے حق ہونے کے یقین کے باوجود ضد اور عناد کی وجہ سے انھوں نے ان کا صاف انکار کر دیا (دیکھیے بنی اسرائیل: ۱۰۲۔ نمل: ۱۳، ۱۴) اور اپنی قوم کو دھوکا دینے کے لیے معجزوں کو جادو اور موسیٰ علیہ السلام کو جادوگر اور کذاب کہہ دیا۔ ورنہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ موسیٰ علیہ السلام جادوگر ہیں نہ جھوٹے، کیونکہ فرعون کے ملک میں جادوگر تو بے شمار تھے مگر کسی جادو گر سے یہ تو نہ ہو سکا کہ وہ اپنے جادو کے زور سے ملک بھر میں قحط مسلط کر دے اور جب اس قحط کو دور کرنے کی درخواست کی جائے تو وہ اپنے جادو کے زور سے بارشیں برسا کر قحط ختم کر دے، بلکہ جادوگروں نے تو بھرے میدان میں موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لا کر فرعون کی مکارانہ سازشوں کی قلعی کھول دی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے سورۂ ذاریات میں جھٹلانے والی تمام اقوام کا یہی رویہ بیان فرمایا ہے: «كَذٰلِكَ مَاۤ اَتَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا قَالُوْا سَاحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌ (52) اَتَوَاصَوْا بِهٖ بَلْ هُمْ قَوْمٌ طَاغُوْنَ» [الذاریات: ۵۲، ۵۳]”اسی طرح ان لوگوں کے پاس جو ان سے پہلے تھے، کوئی رسول نہیں آیا مگر انھوں نے کہا یہ جادوگر ہے یا دیوانہ۔ کیا انھوں نے ایک دوسرے کو اس (بات) کی وصیت کی ہے؟ (نہیں) بلکہ یہ (خود ہی) سرکش لوگ ہیں۔“