(آیت 7) ➊ اَلَّذِيْنَ يَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَ مَنْ حَوْلَهٗ …: پچھلی آیات میں کفار کا انجام بیان فرمایا، جو اللہ کی آیات ٹھکرانے کے لیے فضول جھگڑا اور کج بحثی کرتے ہیں، اب ان کے مقابلے میں ان لوگوں کا حال بیان فرمایا جو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اس پر ایمان لاتے اور کج بحثی سے اجتناب کرتے ہیں۔ ان کے حق میں وہ بلند مرتبہ فرشتے استغفار اور دعائیں کرتے ہیں جو عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں اور جو عرش کے ارد گرد ہیں، وہ سب ”سُبْحَانَ اللّٰهِ وَ بِحَمْدِهِ“ اور اس سے ملتے جلتے کلمات کے ساتھ اپنے رب کی حمد اور اس کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے ہیں، یعنی اس پاک ذات کی تعریف کرتے ہیں کہ وہ تمام صفاتِ کمال کا مالک ہے اور ہر عیب اور کمی سے پاک ہے اور اس پر ایمان رکھتے ہیں۔ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ایمان والوں کے لیے تسلی بھی ہے کہ ہٹ دھرمی اور کج بحثی کرنے والے کفار کے رویے سے بد دل نہ ہوں، اگر یہ لوگ تم سے دشمنی رکھتے ہیں تو تم سے دوستی رکھنے والے بھی بہت ہیں اور بڑی اونچی شان والے ہیں۔ پھر ایسے پاک باز اور خیر خواہ دوستوں کی موجودگی میں، جو ہر وقت اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں تمھارے لیے دعائیں اور بخشش کی درخواست کرتے ہیں، تمھیں کسی دشمن کی کیا پروا ہے؟
➋ وَ يُؤْمِنُوْنَ بِهٖ: یہاں ایک سوال ہے کہ یہ بات تو ہر ایک کو معلوم ہے کہ عرش اٹھانے والے اور دوسرے تمام فرشتے اللہ پر ایمان رکھتے ہیں، پھر ان کے اللہ پر ایمان لانے کا ذکر خاص طور پر کیوں فرمایا؟ زمخشری نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ یہ ایمان کی فضیلت و شرف کو نمایاں کرنے کے لیے اور اس کی ترغیب دینے کے لیے کیا گیا ہے، جیسا کہ سورۂ بلد میں مشکل گھاٹی کی تفصیل بیان کرتے ہوئے گردن چھڑانے اور نیکی کے دوسرے اعمال کا ذکر کرنے کے بعد ایمان لانے کا ذکر فرمایا، تاکہ ایمان کی فضیلت ثابت ہو اور واضح ہو جائے کہ کوئی بھی نیکی اسی وقت معتبر ہے جب اس کے ساتھ ایمان ہو۔
➌ عرش اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوقات میں سے سب سے بڑی مخلوق ہے، کیونکہ وہ تمام زمینوں اور آسمانوں کے اوپر ہے اور اس کے اوپر اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہے، پھر عرش کو اٹھانے والے فرشتوں کی عظمت کا کیا حال ہو گا!؟ جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ أُذِنَ لِيْ أَنْ أُحَدِّثَ عَنْ مَّلَكٍ مِنْ مَّلاَئِكَةِ اللّٰهِ تَعَالٰی مِنْ حَمَلَةِ الْعَرْشِ، إِنَّ مَا بَيْنَ شَحْمَةِ أُذُنِهِ إِلٰی عَاتِقِهِ مَسِيْرَةُ سَبْعِمِائَةِ عَامٍ ][ أبوداوٗد، السنۃ، باب في الجہمیۃ: ۴۷۲۷، و قال الألباني صحیح ]”مجھے اجازت دی گئی ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کے ان فرشتوں میں سے ایک فرشتے کے متعلق بیان کروں جو عرش اٹھائے ہوئے ہیں کہ اس کے کان کی کونپل سے اس کے کندھے تک سات سو سال کا فاصلہ ہے۔“ اب یہ معلوم نہیں کہ یہ سال دنیا والے ہیں یا وہ سال ہیں جن کا ایک دن ہمارے ایک ہزار سال کے برابر ہے، یا اس سے بھی طویل مدت والے سال مراد ہیں، کیونکہ ہمارے سورج کے دائرے کے باہر وقت کا حساب ہمارے حساب سے نہیں ہو سکتا اور اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ افلاک کی وسعت کا کچھ اندازہ نہیں، جہاں سورج بھی ایک ذرے کی حیثیت رکھتا ہے۔ غرض یہ ان فرشتوں کی عظمت کا محض ایک اندازہ ہے۔ عرش کو اٹھانے والے اتنے عظیم فرشتے اور عرش کے ارد گرد موجود اور اس کا طواف کرنے والے فرشتے جب مومنوں کے حق میں استغفار اور دعائیں کر رہے ہیں، اور ظاہر ہے کہ وہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے حکم سے کر رہے ہیں، جیسا کہ تمام فرشتوں کے متعلق فرمایا: «بَلْ عِبَادٌ مُّكْرَمُوْنَ (26) لَا يَسْبِقُوْنَهٗ بِالْقَوْلِ وَ هُمْ بِاَمْرِهٖ يَعْمَلُوْنَ»[ الأنبیاء: ۲۶، ۲۷ ]”بلکہ وہ بندے ہیں جنھیں عزت دی گئی ہے۔ وہ بات کرنے میں اس سے پہل نہیں کرتے اور وہ اس کے حکم کے ساتھ ہی عمل کرتے ہیں۔“ تو اس سے ایمان والوں پر اللہ تعالیٰ کی بے حد و حساب مہربانی اور رحمت کا اندازہ ہوتا ہے۔ مزید دیکھیے سورۂ حاقہ (۱۷)۔
➍ اس آیت میں توبہ کرنے والوں کے لیے صرف عرش اٹھانے والے اور اس کے ارد گرد موجود فرشتوں کے استغفار اور دعا کا ذکر ہے، دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تمام فرشتے ان کے لیے استغفار کرتے ہیں، فرمایا: «تَكَادُ السَّمٰوٰتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْ فَوْقِهِنَّ وَ الْمَلٰٓىِٕكَةُ يُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَ يَسْتَغْفِرُوْنَ۠ لِمَنْ فِي الْاَرْضِ اَلَاۤ اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ» [الشورٰی: ۵ ]”آسمان قریب ہیں کہ اپنے اوپر سے پھٹ پڑیں اور فرشتے اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں اور ان لوگوں کے لیے بخشش کی دعا کرتے ہیں جو زمین میں ہیں، سن لو! بے شک اللہ ہی بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔“
➎ رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَّحْمَةً وَّ عِلْمًا: یہاں” يَقُوْلُوْنَ“(وہ فرشتے کہتے ہیں) محذوف ہے۔ یعنی تسبیح و تحمید کی طرح ایمان والوں کے لیے دعا کرنا بھی ان کے معمولات میں شامل ہے۔ اس سے ایمان کی فضیلت اور ایمان والوں کے باہمی تعلق اور محبت کا اندازہ ہوتا ہے کہ عرش کے پاس رہنے والے فرشتے زمین پر رہنے والے مومنوں کے حق میں دعائیں کرتے ہیں۔ اسی طرح اس سے دعا کا سلیقہ بھی حاصل ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو ” رَبَّنَا “(اے ہمارے رب! اے ہمارے پالنے والے!) کہہ کر پکارتے ہیں، پھر اس سے اس کی رحمت اور اس کے علم کا واسطہ دے کر سوال کرتے ہیں، یعنی تیری رحمت ہر چیز پر وسیع ہے (دیکھیے اعراف: ۱۵۶) اور تیرا علم بھی ہر چیز پر وسیع ہے۔ (دیکھیے انعام: ۸۰۔ طلاق: ۱۲)
➏ فَاغْفِرْ لِلَّذِيْنَ تَابُوْا …: اس لیے تو اپنی رحمت اور علم کے تقاضے کے مطابق ان گناہ گاروں کو بخش دے جو اپنے گناہوں سے توبہ کریں، ان سے باز آ جائیں اور تیرے راستے کی پیروی کریں، تو نے جو حکم دیا ہے اس پر عمل کریں اور جس سے منع کیا ہے اسے چھوڑ دیں اور اے اللہ! انھیں بھڑکتی ہوئی آگ کے عذاب سے بچا لے۔ مزید دیکھیے سورۂ شوریٰ کی آیت (۵) کی تفسیر۔