(آیت 4) ➊ مَا يُجَادِلُ فِيْۤ اٰيٰتِ اللّٰهِ اِلَّا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا:” كفر “ کا معنی چھپانا بھی ہے اور انکار بھی اور جھگڑے سے مراد کج بحثی کر کے آیاتِ الٰہی کو جھٹلانا اور انھیں رد کرنا ہے، ورنہ جس جدال اور بحث و مناظرے کا مقصد اللہ تعالیٰ کی آیات کی تصدیق اور حق بات کو ثابت کرنا ہو وہ قابل تعریف ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا: «وَ جَادِلْهُمْ بِالَّتِيْ هِيَ اَحْسَنُ»[ النحل: ۱۲۵ ]”اور ان سے اس طریقے کے ساتھ بحث کر جو سب سے اچھا ہے۔“ اور نوح علیہ السلام کو ان کی قوم نے کہا: «يٰنُوْحُ قَدْ جٰدَلْتَنَا فَاَكْثَرْتَ جِدَا لَنَا فَاْتِنَا بِمَا تَعِدُنَاۤ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِيْنَ»[ ھود: ۳۲ ]”اے نوح! بے شک تونے ہم سے جھگڑا کیا، پھر ہم سے بہت جھگڑا کیا، پس لے آ ہم پر جس کی تو ہمیں دھمکی دیتا ہے، اگر تو سچوں سے ہے۔“ ابراہیم علیہ السلام نے اپنے وقت کے بادشاہ کے ساتھ مناظرہ کر کے اسے لاجواب کیا، فرمایا: «اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْ حَآجَّ اِبْرٰهٖمَ فِيْ رَبِّهٖۤ»[ البقرۃ: ۲۵۸ ]”کیا تو نے اس شخص کو نہیں دیکھا جس نے ابراہیم سے اس کے رب کے بارے میں جھگڑا کیا۔“ ابراہیم علیہ السلام نے سورج، چاند اور ستاروں کی عبادت کرنے والوں کو لاجواب کیا (دیکھیے انعام: ۷۵ تا ۸۳) اور بت پرستوں کو لاجواب کیا۔ (دیکھیے انبیاء: ۵۱ تا ۷۰) یعنی اتنی عظیم کتاب، جس کے اتارنے والے کی صفات کا ذکر اوپر گزرا، کوئی حق بات تسلیم کرنے والا شخص اس کی آیات کو جھٹلانے کے لیے جھگڑا نہیں کرتا، صرف وہی لوگ یہ جرأت کرتے ہیں جو حق کو چھپاتے اور اس کا انکار کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ اَلْمِرَاءُ فِي الْقُرْآنِ كُفْرٌ][أبو داوٗد، السنۃ، باب النہي عن الجدال في القرآن: ۴۶۰۳، عن أبي ہریرۃ رضی اللہ عنہ ]”قرآن میں جھگڑا کرنا کفر ہے۔“
➋ فَلَا يَغْرُرْكَ تَقَلُّبُهُمْ فِي الْبِلَادِ: یعنی ان لوگوں کی خوش حالی اور ان کا عیش و عشرت کے لیے یا تجارت اور دوسرے کاموں کے لیے مختلف شہروں میں پھرنا دیکھ کر کوئی شخص اس غلط فہمی میں مبتلا نہ ہو کہ یہ اللہ کے پسندیدہ لوگ ہیں، دراصل یہ ان کے لیے مہلت ہے۔ مزید دیکھیے سورۂ آل عمران (۱۹۶، ۱۹۷)۔