(آیت 3،2) ➊ تَنْزِيْلُ الْكِتٰبِ مِنَ اللّٰهِ الْعَزِيْزِ الْعَلِيْمِ…: اس سورت میں توحید، قیامت اور اسلام کے بنیادی عقائد اور کفار کے مسلمانوں کے ساتھ ناحق جھگڑے اور کج بحثی کا ذکر ہے۔ ان دو آیات میں اس کتاب کے نازل کرنے والے کی چھ صفات اس انداز سے بیان کی گئی ہیں کہ اس کتاب پر کفار کے تمام اعتراضات کا جامع جواب آ گیا ہے۔
مفسر عبد الرحمن کیلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ”کفار کا بنیادی اعتراض یہ تھا کہ یہ کلام اللہ کی طرف سے نازل شدہ نہیں، بلکہ تمھاری اختراع ہے۔ آغاز ہی میں فرما دیا کہ یہ کتاب کسی کمزور ہستی کی طرف سے نہیں بلکہ اس اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے جو (الْعَزِيْزِ ہے، یعنی) کائنات کی ہر چیز پر غالب ہے اور تمھاری معاندانہ کوششوں اور سازشوں کے علی الرغم اپنے کلمہ کو سر بلند اور نافذ کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ اس کی دوسری صفت یہ ہے کہ وہ (الْعَلِيْمِ ہے، یعنی) وہ ہر چیز کا براہِ راست اور پورا پورا علم رکھتا ہے، لہٰذا اس کتاب میں اے کفار مکہ! جو (احکام اور جو) خبریں بھی دی گئی ہیں سب درست اور یقینی ہیں۔ تیسری صفت (غَافِرِ الذَّنْۢبِ) یہ بیان فرمائی کہ وہ اپنے فرماں بردار بندوں کے بہت سے گناہ از خود ہی بخشتا رہتا ہے۔ چوتھی صفت (قَابِلِ التَّوْبِ) یہ ہے کہ کافر توبہ کر کے حلقۂ اسلام میں داخل ہو جائیں تو ان کی توبہ قبول کر کے ان کے سابقہ گناہوں کو معاف کر دینے والا ہے اور اس صفت کا تعلق صرف نو مسلموں سے نہیں بلکہ جو بندہ بھی اپنے گناہوں پر نادم ہوکر اس کی طرف رجوع کر کے اپنے گناہوں کی معافی مانگے اس کے گناہ بھی معاف کر دیتا ہے۔ پانچویں صفت (شَدِيْدِ الْعِقَابِ) یہ ہے کہ وہ اپنے باغیوں کو سخت سزا دے کر ان کی اکڑی ہوئی گردنیں توڑ سکتا ہے، خواہ وہ یہ عذاب دنیا میں دے یا آخرت میں اور اس کی چھٹی صفت (ذِي الطَّوْلِ) یہ ہے کہ وہ کشادہ دست (کھلے ہاتھ اور بڑے فضل والا) ہے، ہر وقت انعامات کی بارش کرتا رہتا ہے اور اس سے اپنے نافرمانوں کو بھی محروم نہیں فرماتا۔ اتنی صفات بیان کرنے کے بعد ان دو بنیادی جھگڑوں کی حقیقت بیان فرما دی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور کفار مکہ کے درمیان چل رہے تھے، ان میں سے پہلا یہ (لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ) ہے کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں، باقی تمام معبود جھوٹے، باطل اور بے کار ہیں اور دوسرا (اِلَيْهِ الْمَصِيْرُ) یہ کہ روزِ آخرت کا قیام یقینی ہے اور تم سب کو یقینا اللہ کے حضور پیش ہونا ہو گا۔“(تیسیر القرآن)
➋ اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات بیان فرماتے ہوئے رحمت و عذاب دونوں پر مشتمل صفات بیان فرمائی ہیں اور یہی اللہ تعالیٰ کا طریقہ ہے، تاکہ امید و خوف دونوں موجود رہیں، جیسا کہ فرمایا: «نَبِّئْ عِبَادِيْۤ اَنِّيْۤ اَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ (49) وَ اَنَّ عَذَابِيْ هُوَ الْعَذَابُ الْاَلِيْمُ» [ الحجر: ۴۹،۵۰ ]”میرے بندوں کو خبر دے دے کہ بے شک میں ہی بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والاہوں۔ اور یہ بھی کہ بے شک میرا عذاب ہی دردناک عذاب ہے۔“ یاد رہے کہ یہاں رحمت کی صفات عذاب کی صفات سے زیادہ بیان ہوئی ہیں، چنانچہ ” شَدِيْدِ الْعِقَابِ “ سے پہلے بھی رحمت پر مشتمل دو صفات ” غَافِرِ الذَّنْۢبِ “ اور ” قَابِلِ التَّوْبِ “ ہیں اور بعد میں بھی ” ذِي الطَّوْلِ “ ہے۔ اس کی وجہ وہی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ لَمَّا قَضَی اللّٰهُ الْخَلْقَ كَتَبَ فِيْ كِتَابِهِ، فَهُوَ عِنْدَهُ فَوْقَ الْعَرْشِ إِنَّ رَحْمَتِيْ غَلَبَتْ غَضَبِيْ ][ بخاري، بدء الخلق، باب ما جاء في قول اللّٰہ تعالٰی: «وھو الذی یبدء الخلق…»: ۳۱۹۴ ]”اللہ تعالیٰ نے جب مخلوق پیدا فرمائی تو اپنی کتاب میں لکھ دیا، چنانچہ وہ کتاب عرش کے اوپر اس کے پاس ہے کہ بلاشبہ میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے۔“