(آیت 75) ➊ وَ تَرَى الْمَلٰٓىِٕكَةَ حَآفِّيْنَ …: یعنی جس وقت اللہ تعالیٰ لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے کے لیے نزول فرمائے گا اس وقت فرشتے عرش کو اردگرد سے گھیرے ہوئے ہوں گے۔ اس منظر کو دوسرے مقام پر کچھ تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا ہے: «فَاِذَا نُفِخَ فِي الصُّوْرِ نَفْخَةٌ وَّاحِدَةٌ (13) وَّ حُمِلَتِ الْاَرْضُ وَ الْجِبَالُ فَدُكَّتَا دَكَّةً وَّاحِدَةً (14) فَيَوْمَىِٕذٍ وَّقَعَتِ الْوَاقِعَةُ (15) وَ انْشَقَّتِ السَّمَآءُ فَهِيَ يَوْمَىِٕذٍ وَّاهِيَةٌ (16) وَّ الْمَلَكُ عَلٰۤى اَرْجَآىِٕهَا وَ يَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّكَ فَوْقَهُمْ يَوْمَىِٕذٍ ثَمٰنِيَةٌ (17) يَوْمَىِٕذٍ تُعْرَضُوْنَ لَا تَخْفٰى مِنْكُمْ خَافِيَةٌ»[ الحآقۃ: ۱۳ تا ۱۸ ]”پس جب صور میں پھونکا جائے گا، ایک بار پھونکنا۔ اور زمین اور پہاڑوں کو اٹھایا جائے گا، پس دونوں ٹکرا دیے جائیں گے، ایک بار ٹکرا دینا۔ تو اس دن ہونے والی ہو جائے گی۔ اور آسمان پھٹ جائے گا، پس وہ اس دن کمزور ہو گا۔ اور فرشتے اس کے کناروں پر ہوں گے اور تیرے رب کا عرش اس دن آٹھ (فرشتے) اپنے اوپر اٹھائے ہوئے ہوں گے۔ اس دن تم پیش کیے جاؤ گے، تمھاری کوئی چھپی ہوئی بات چھپی نہیں رہے گی۔“ سورۂ حاقہ میں ان آیات کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔
➋ مِنْ حَوْلِ الْعَرْشِ: یہاں ایک سوال ہے کہ یہ کہنا ہی کافی تھا ”حَافِّيْنَ حَوْلَ الْعَرْشِ“ کہ وہ عرش کے گرد گھیرا ڈالے ہوئے ہوں گے، پھر لفظ ” مِنْ “ لانے کی کیا ضرورت تھی؟ اس کا جواب بعض مفسرین نے دیا ہے کہ یہ ” مِنْ “ زائد ہے۔ بقاعی نے فرمایا کہ یہ ” مِنْ “ تبعیض کے لیے ہے، یعنی فرشتے کتنی بھی تعداد میں ہوں عرش اللہ تعالیٰ کی اتنی بڑی مخلوق ہے کہ سب فرشتے مل کر بھی اس کے اردگرد کے کچھ حصے ہی پر گھیرا ڈال سکیں گے۔
➌ وَ قُضِيَ بَيْنَهُمْ بِالْحَقِّ: یعنی ایسے پر جلال اور پر ہیبت ماحول میں اللہ تعالیٰ لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ فرمائے گا۔
➍ وَ قِيْلَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ: یعنی لوگوں کے فیصلے کا اختتام اللہ رب العالمین کی حمد پر ہو گا۔ حمد کرنے والوں کے عام ہونے کی وجہ سے ” قِيْلَ “(کہا جائے گا) میں کہنے والے کا ذکر نہیں فرمایا۔ مطلب یہ کہ جب فیصلہ ہو چکے گا تو کائنات کا ذرہ ذرہ ان سراسر عدل اور رحم والے فیصلوں پر اللہ رب العالمین کی حمد کرے گا اور ہر طرف سے آواز آئے گی: «اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ»” سب تعریف اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔“ طبری نے صحیح سند کے ساتھ قتادہ کا قول ذکر کیا ہے، انھوں نے فرمایا: ”مخلوق کی پیدائش کی ابتدا بھی حمد کے ساتھ ہے، جیسا کہ فرمایا: «اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ جَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَ النُّوْرَ» [ الأنعام: ۱ ]”سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور اندھیروں اور روشنی کو بنایا۔“ اور مخلوق کی انتہا بھی حمد ہے، فرمایا: «وَ قُضِيَ بَيْنَهُمْ بِالْحَقِّ وَ قِيْلَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ» [ الزمر: ۷۵ ]”اور ان کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کر دیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ سب تعریف ا للہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔“(طبری) ہمارے لیے اس میں یہ سبق ہے کہ ہر کام کے آخر میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا ہونی چاہیے، جیسا کہ اہلِ جنت کے متعلق فرمایا: «دَعْوٰىهُمْ فِيْهَا سُبْحٰنَكَ اللّٰهُمَّ وَ تَحِيَّتُهُمْ فِيْهَا سَلٰمٌ وَ اٰخِرُ دَعْوٰىهُمْ اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ»[ یونس: ۱۰ ]”ان کی دعا ان میں یہ ہوگی”پاک ہے تو اے اللہ!“ اور ان کی آپس کی دعا ان (باغات) میں سلام ہوگی اور ان کی دعا کا خاتمہ یہ ہوگا کہ سب تعریف اللہ کے لیے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔“ حمد کے متعلق مزید دیکھیے سورۂ فاتحہ کی تفسیر۔