(آیت 63) ➊ لَهٗ مَقَالِيْدُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ:” مَقَالِيْدُ “”مِقْلَدٌ“ یا ”مِقْلَادٌ“ کی جمع ہے، جس طرح قلادہ (ہار یا پٹا) گردن کے ساتھ ہوتا ہے اسی طرح چابی تالے کے ساتھ ہوتی ہے۔ اکثر مفسرین کا کہنا ہے کہ یہ ”إِقْلِيْدٌ“ کی جمع ہے اور عام قاعدے کے خلاف ہے۔ ”إِقْلِيْدٌ“ دراصل فارسی لفظ ”کلید“ سے عربی بنایا گیا ہے۔ یعنی زمین و آسمان کے خزانوں کی کنجیاں بھی اسی کے پاس ہیں، کسی اور کے پاس کچھ ہے ہی نہیں، تو اسے پکارنے اور اس سے فریاد کرنے کا کیا فائدہ؟ یہ اکیلے اللہ کے مستحق عبادت ہونے کی تیسری دلیل ہے۔
➋ وَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ …: یہاں ایک سوال ہے کہ ”واؤ“ کے ساتھ عطف کس جملے پر ڈالا گیا ہے؟ زمخشری نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ اس کا عطف ” وَ يُنَجِّي اللّٰهُ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا “ پر ہے اور درمیان کے جملے معترضہ ہیں۔ مگر اتنی دور عطف محل نظر ہے۔ بقاعی نے فرمایا، اس کا عطف ایک مقدر جملے پر ہے جو سیاق سے ظاہر ہو رہا ہے: ”أَيْ فَالَّذِيْنَ آمَنُوْا وَ تَقَبَّلُوْا آيَاتِهِ أُوْلٰئِكَ هُمُ الْفَائِزُوْنَ وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِآيَاتِ اللّٰهِ هُمُ الْخَاسِرُوْنَ“”تو جو لوگ ایمان لے آئے اور اس کی آیات کو قبول کر لیا یہی لوگ کامیاب ہیں اور جن لوگوں نے اللہ کی آیات کا انکار کیا وہی خسارہ اٹھانے والے ہیں۔“” هُمْ “ ضمیر فصل کی وجہ سے اور ”الْخٰسِرُوْنَ “ خبر پر الف لام کی وجہ سے کلام میں تاکید اور حصر پیدا ہو گیا، یعنی خسارہ اٹھانے والے صرف وہ ہیں جنھوں نے اللہ کی آیات کا انکار کر دیا۔ گویا اس کے علاوہ اگر کوئی خسارہ ہے بھی تو فی الحقیقت خسارہ نہیں ہے، کیونکہ وہ عارضی خسارہ ہے۔ اسی طرح حقیقی کامیابی صرف آخرت کی کامیابی ہے، کیونکہ وہی دائمی اور پائیدار کامیابی ہے، فرمایا: «فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَ اُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ» [ آل عمران: ۱۸۵ ]”پھر جو شخص آگ سے دور کر دیا گیا اور جنت میں داخل کر دیا گیا تو یقینا وہ کامیاب ہوگیا۔“”اللہ کی آیات“ سے مراد اس کے وجود اور وحدانیت کے دلائل ہیں جو گزشتہ آیات، خصوصاً اس سے پہلے تین جملوں میں بیان ہوئے ہیں۔