(آیت 61) ➊ وَ يُنَجِّي اللّٰهُ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا …: متکبرین کا انجام بیان فرمانے کے بعد متقین کا انجام بیان فرمایا۔ اس سے معلوم ہوا کہ تقویٰ تکبر کے منافی ہے، کیونکہ تقویٰ اللہ کی نافرمانی سے بچنے اور اس کے سامنے عاجز ہو جانے کا نام ہے، جیسا کہ فرمایا: «تِلْكَ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِيْنَ لَا يُرِيْدُوْنَ عُلُوًّا فِي الْاَرْضِ وَ لَا فَسَادًا وَ الْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِيْنَ» [ القصص: ۸۳ ]”یہ آخری گھر، ہم اسے ان لوگوں کے لیے بناتے ہیں جو نہ زمین میں کسی طرح اونچا ہونے کا ارادہ کرتے ہیں اور نہ کسی فساد کا اور اچھا انجام متقی لوگوں کے لیے ہے۔“
➋ بِمَفَازَتِهِمْ: ”مَفَازَةٌ“”فَازَ يَفُوْزُ فَوْزًا“ سے مصدر میمی ہے ”کامیابی“ یا ظرف مکان ہے ”کامیابی کی جگہ“ یعنی اللہ تعالیٰ متقی لوگوں کو (دنیا کی امتحان گاہ میں) کامیاب ہونے کی وجہ سے جہنم سے نجات عطا فرمائے گا، یا اللہ تعالیٰ متقی لوگوں کو ان کے کامیاب ہونے کی جگہ (جنت میں داخلے) کے ساتھ نجات عطا فرمائے گا، جیسا کہ فرمایا: «فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَ اُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ»[ آل عمران: ۱۸۵ ]”پھر جو شخص آگ سے دور کر دیا گیا اور جنت میں داخل کر دیا گیا تو یقینا وہ کامیاب ہو گیا۔“
➌ لَا يَمَسُّهُمُ السُّوْٓءُ وَ لَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ: یعنی نہ آئندہ انھیں کوئی تکلیف یا برائی پہنچے گی۔ چنانچہ نہ ان پر کوئی خوف آئے گا اور نہ ہی انھیں دنیا میں گزرے ہوئے صدموں یا پریشانیوں کا کوئی غم رہے گا، کیوں کہ جنت کا ایک ہی پھیرا انھیں دنیا کے تمام رنج و غم بھلا دے گا۔