(آیت 46) ➊ قُلِ اللّٰهُمَّ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ …: کفار کو توحید کی دعوت دیتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو مشقتیں اٹھائیں اور ان کی ضد، عناد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے آپ کو جو تکلیفیں پہنچیں اور توحید کے واضح دلائل کے سامنے لاجواب ہو کر بھی وہ جس طرح شرک پر ڈٹے رہے، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دینے کے لیے حکم دیا گیا کہ آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں اور سارا معاملہ اس کے سپرد کریں، کیونکہ وہی آسمان و زمین کو پیدا کرنے والا ہے، ہر چیز پر قادر ہے اور مخلوق کے تمام حاضر و غائب احوال کو جاننے والا ہے۔ اس لیے ان اسماء و صفات کے وسیلے سے اس سے دعا کریں کہ جب تیری توحید جیسی روشن اور واضح بات میں بھی جھگڑے ہونے لگے اور زمین و آسمان کو پیدا کرنے والے اور حاضر و غائب کو جاننے والے کا وقار بھی دلوں میں نہ رہا تو اب تجھی سے فریاد ہے، تو ہی ان جھگڑوں کا فیصلہ فرمائے گا۔
➋ ابو سلمہ بن عبد الرحمن بیان کرتے ہیں کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنھا سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات قیام کرتے تو اپنی نماز کا افتتاح کس چیز سے کرتے تھے؟ انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات اٹھتے تو اپنی نماز کا افتتاح اس دعا سے کرتے: [ اَللّٰهُمَّ رَبَّ جِبْرَائِيْلَ وَ مِيْكَائِيْلَ وَ إِسْرَافِيْلَ فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرْضِ عَالِمَ الْغَيْبِ وَ الشَّهَادَةِ أَنْتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِكَ فِيْمَا كَانُوْا فِيْهِ يَخْتَلِفُوْنَ اهْدِنِيْ لِمَا اخْتُلِفَ فِيْهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِكَ إِنَّكَ تَهْدِيْ مَنْ تَشَاءُ إِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ ][ مسلم، صلاۃ المسافرین، باب صلاۃ النبي صلی اللہ علیہ وسلم و دعائہ باللیل: ۷۷۰ ]”اے اللہ! اے جبرائیل، میکائیل اور اسرافیل کے رب! اے آسمان و زمین کو پیدا کرنے والے! اے حاضر و غائب کو جاننے والے! تو ہی اپنے بندوں کے درمیان اس چیز کا فیصلہ کرے گا جس میں وہ اختلاف کیا کرتے تھے، مجھے حق کی ان تمام باتوں میں اپنے اذن سے سیدھی راہ پر لگا جن میں اختلاف کیا گیا ہے، کیونکہ تو ہی سیدھے راستے پر لگاتا ہے جسے چاہتا ہے۔“
ابوراشد حُبرانی کہتے ہیں، میں نے عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنھما سے کہا کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کچھ سنا ہے اس میں سے کچھ ہمیں بیان کریں تو انھوں نے میرے سامنے ایک کتاب نکال کر کہا، یہ ہے وہ کتاب جو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھوائی ہے۔ میں نے دیکھا تو اس میں لکھا تھا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: ”یا رسول اللہ! آپ مجھے سکھائیں کہ میں صبح اور شام کو کیا پڑھوں؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ابوبکر! یہ پڑھو: [ اَللّٰهُمَّ فَاطِرَ السَّمٰوَاتِ وَ الْأَرْضِ عَالِمَ الْغَيْبِ وَ الشَّهَادَةِ لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ رَبَّ كُلِّ شَيْءٍ وَ مَلِيْكَهُ أَعُوْذُ بِكَ مِنْ شَرِّ نَفْسِيْ وَ مِنْ شَرِّ الشَّيْطَانِ وَ شِرْكِهِ وَ أَنْ أَقْتَرِفَ عَلٰی نَفْسِيْ سُوْءًا أَوْ أَجُرَّهُ إِلٰی مُسْلِمٍ ][ ترمذي، الدعوات، باب دعاء علمہ صلی اللہ علیہ وسلم أبا بکر…: ۳۵۲۹، و قال الألباني صحیح ]”اے اللہ! اے آسمان و زمین کو پیدا کرنے والے، غائب و حاضر کو جاننے والے! تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اے ہر چیز کے رب اور اس کے بادشاہ! میں تجھ سے اپنے نفس کے شر سے اور شیطان کے شر اور اس کے شرک سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ میں اپنے نفس پر کسی برائی کا ارتکاب کروں یا کسی مسلم کا برا کروں۔“