(آیت 38) ➊ وَ لَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ …: اس آیت میں مشرکین کی جہالت اور ان کے قول و عمل کے تضاد کو اجاگر کیا ہے۔ فرمایا، اگر آپ ان سے پوچھیں کہ آسمانوں کو اور زمین کو کس نے پیدا کیا تو یقینا کہیں گے، اللہ تعالیٰ نے۔ اس اقرار کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ جب خالق وہ ہے تو مالک بھی وہی ہے، پھر کسی اور کے پاس کسی طرح کے نفع یا نقصان کا کیا اختیار ہو سکتا ہے۔ اس لیے اس اقرار کے بعد انھیں اللہ کے سوا دوسری ہستیوں کے نفع یا نقصان کااختیار نہ رکھنے کا اقرار کروانے کے لیے فرمایا، ان سے کہیے کہ پھر یہ بتاؤ کہ وہ ہستیاں جنھیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو، اگر اللہ مجھے کوئی تکلیف یا نقصان پہنچانے کا ارادہ کرے تو کیا وہ اس کی تکلیف یا نقصان کو ہٹا سکتی ہیں، یا اگر وہ مجھ پر کوئی مہربانی فرمانا چاہے تو کیا وہ اس کی رحمت کو روک سکتی ہیں؟ اللہ تعالیٰ نے کفار کا جواب یہاں ذکر نہیں فرمایا۔ یا تو اس لیے کہ اس کا جواب بالکل واضح ہے کہ جب خالق و مالک اللہ تعالیٰ ہے تو کوئی دوسرا اس کے ارادے کے خلاف کیا کر سکتا ہے، یا اس لیے کہ مشرک یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان کے معبود کچھ اختیار نہیں رکھتے، یہ نہیں کہیں گے کہ وہ نہ تکلیف دور کریں گے اور نہ اس کی رحمت کو روک سکیں گے، بلکہ لاجواب ہو کر خاموشی اختیار کریں گے۔
➋ قُلْ حَسْبِيَ اللّٰهُ …: یعنی کافر اس سوال کے جواب میں خاموش رہیں تو آپ خود فرما دیں کہ مجھے تو اللہ کافی ہے، تمام بھروسا کرنے والے اسی پر بھروسا کرتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ تمام بھروسا کرنے والوں کو اسی پر بھروسا کرنا لازم ہے، کیونکہ جب کسی بات کا زیادہ زور سے حکم دینا ہو تو اسے خبر کی صورت میں بیان کیا جاتا ہے، مثلاً کہنا ہو کہ آج سب لوگ فلاں جگہ عصر کی نماز پڑھیں، تو کہا جائے گا، آج سب لوگ عصر کی نماز فلاں جگہ پڑھ رہے ہیں یا پڑھیں گے۔
➌ هَلْ هُنَّ كٰشِفٰتُ ضُرِّهٖۤ …: اللہ کے سوا ہستیوں کو مؤنث کے صیغے کے ساتھ ذکر کرنے سے ان کے بے اختیار ہونے کا اظہار اور ان کی تحقیر مراد ہے۔
➍ ”اللہ کے سوا نفع یا نقصان کا کوئی بھی مالک نہیں“ یہ مضمون اللہ تعالیٰ نے مختلف طریقوں سے قرآن مجید میں جا بجا بیان فرمایا ہے۔ دیکھیے سورۂ رعد (۱۴ تا ۱۶)، فرقان (۳)، انعام (۱۷) اور سورۂ یونس (۱۰۶، ۱۰۷)۔