(آیت 33) ➊ وَ الَّذِيْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَ صَدَّقَ بِهٖۤ: ” الَّذِيْ “ سے مراد پہلے گروہ کے بالمقابل گروہ ہے اور پہلی آیت کے”مَنْ“ کی طرح اس آیت میں” الَّذِيْ “ عموم کے لیے ہے، اس سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ہر وہ شخص ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت لے کر اٹھ کھڑا ہو، کیونکہ یہ لوگ سچی بات لانے والے بھی ہیں اور اسے سچ ماننے والے بھی۔ سچ لے کر آنے کے ساتھ اس کی تصدیق کی شرط اس لیے لگائی کہ بعض اوقات آدمی سچ بیان کر دیتا ہے، مگر اپنے تکبر کی وجہ سے اسے ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتا، اس لیے تعریف کے قابل وہی ہے جس میں صدق اور تصدیق دونوں پائی جائیں، کیونکہ اس کا صدق اس کے علم کی دلیل ہے اور تصدیق اس کی تواضع اور تکبر سے پاک ہونے کی دلیل ہے۔ (سعدی) شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ”جو سچی بات لے کر آیا وہ نبی اور جس نے سچ مانا وہ مومن ہے۔“(موضح) اس تفسیر کے مطابق دونوں کا مصداق الگ الگ ہے، اس لیے بعض مفسرین نے سچی بات لانے والے سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لیے ہیں، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس امت میں سب سے پہلے سچی بات لے کر آئے اور اس کی تصدیق کرنے والے سے مراد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ لیے ہیں، کیونکہ وہ سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے۔ اگرچہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے علاوہ تمام مومن بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جنھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کی اور وہ تمام داعی بھی سچی بات لانے والوں میں شامل ہیں جنھوں نے اسلام کی دعوت دی۔
➋ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ: یعنی یہی لوگ شرک سے بچنے والے اور جہنم سے بچے رہنے والے ہیں۔