(آیت 9) ➊ اَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ اٰنَآءَ الَّيْلِ …: ” قَانِتٌ “ کا معنی عبادت کرنے والا بھی ہے، فرماں بردار بھی اور خشوع و عاجزی کرنے والا بھی۔ ” اَمَّنْ “(یا وہ شخص) کے لفظ سے ظاہر ہے کہ اس سے پہلے کچھ الفاظ محذوف ہیں، یعنی ”أَ هٰذَا خَيْرٌ“(کیا یہ مصیبت میں اپنے رب کو پکارنے والا اور نعمت عطا ہونے پر اسے بھول جانے والا بہتر ہے)” اَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ “ یا وہ شخص جو صرف دن کے وقت ہی نہیں بلکہ رات کی گھڑیوں میں بھی سجدے اور قیام کے ساتھ اللہ کی عبادت کرنے والا اور ہر حال میں اسی کا فرماں بردار ہے؟ جواب ظاہر ہے کہ یہ مومن (قانت) ہر لحاظ سے اس سے بہتر ہے۔
➋ يَحْذَرُ الْاٰخِرَةَ وَ يَرْجُوْا رَحْمَةَ رَبِّهٖ: ایمان اللہ تعالیٰ کے خوف اور اس سے امید کے درمیان ہے۔ انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک نوجوان کے پاس گئے جو موت (کے چل چلاؤ) میں تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ كَيْفَ تَجِدُكَ؟ قَالَ وَاللّٰهِ! يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ! إِنِّيْ أَرْجُو اللّٰهَ وَ إِنِّيْ أَخَافُ ذُنُوْبِيْ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ لَا يَجْتَمِعَانِ فِيْ قَلْبِ عَبْدٍ فِيْ مِثْلِ هٰذَا الْمَوْطِنِ إِلَّا أَعْطَاهُ اللّٰهُ مَا يَرْجُوْ وَ آمَنَهُ مِمَّا يَخَافُ ][ ترمذي، الجنائز، باب الرجاء باللّٰہ والخوف بالذنب عند الموت: ۹۸۳ ]”تو اپنے آپ کو کس حال میں پاتا ہے؟“ اس نے کہا: ”اللہ کی قسم! یا رسول اللہ! میں اللہ سے امید رکھتا ہوں اور اپنے گناہوں سے ڈرتا بھی ہوں۔“ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس جیسے مقام پر کسی بندے کے دل میں یہ دونوں چیزیں جمع نہیں ہوتیں مگر اللہ تعالیٰ اسے وہ چیز عطا کر دیتا ہے جس کی وہ امید رکھتا ہے اور اس چیز سے اسے امن عطا کر دیتا ہے جس سے وہ ڈرتا ہے۔“
➌ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِيْنَ يَعْلَمُوْنَ …: یہاں ” الَّذِيْنَ يَعْلَمُوْنَ “(جاننے والے) ان لوگوں کو کہا گیا ہے جو دن رات، خوش حالی و بدحالی میں ہر وقت ایک اللہ ہی کی عبادت کرنے والے اور اسی کے فرماں بردار ہیں اور ” وَ الَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ “(نہ جاننے والے) ان لوگوں کو کہا گیا ہے جو تکلیف اور مصیبت میں تمام معبودوں سے واپس پلٹ کر ایک اللہ ہی کو پکارتے ہیں، مگر خوش حالی میں اسے بھول کر اللہ تعالیٰ کے لیے کئی شریک بنا لیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ جاننے کے باوجود کہ تمام اختیارات کا مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے، نعمت عطا ہونے پر اسے بھلا دیتے ہیں اور اس کے شریک بنا لیتے ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے انھیں نہ جاننے والے قرار دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص اپنے علم پر عمل نہیں کرتا وہ جاہل (لَا يَعْلَمُ) ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «اِنَّمَا يَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُا» [ فاطر: ۲۸ ]”اللہ سے تو اس کے بندوں میں سے صرف علماء (جاننے والے) ہی ڈرتے ہیں۔“ اللہ تعالیٰ سے نہ ڈرنے والے اللہ کے نزدیک علماء نہیں، خواہ ان کے پاس کتنی ڈگریاں اور کتنے عہدے ہوں اور خواہ انھوں نے کتنی کتابیں یا کتب خانے چاٹ رکھے ہوں۔
➍ اس آیت سے علم اور اس پر عمل کرنے والے اہلِ علم کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ لَا حَسَدَ إِلَّا فِي اثْنَتَيْنِ رَجُلٌ آتَاهُ اللّٰهُ الْقُرْآنَ فَهُوَ يَتْلُوْهُ آنَاءَ اللَّيْلِ وَ آنَاءَ النَّهَارِ، وَ رَجُلٌ آتَاهُ اللّٰهُ مَالًا فَهُوَ يُنْفِقُهُ آنَاءَ اللَّيْلِ وَآنَاءَ النَّهَارِ ][ بخاري، التوحید، باب قول النبي صلی اللہ علیہ وسلم : رجل آتاہ اللّٰہ القرآن…: ۷۵۲۹ ]”دو چیزوں کے سوا رشک کرنا درست نہیں، ایک وہ آدمی جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن دیا تو وہ رات کی گھڑیوں میں اور دن کی گھڑیوں میں اس کی تلاوت کرتا ہے، اور ایک وہ آدمی جسے اللہ تعالیٰ نے کھلا مال عطا کیا ہے تو وہ رات کی گھڑیوں اور دن کی گھڑیوں میں اسے خرچ کرتا ہے۔“ امام بخاری رحمہ اللہ نے ”بَابُ فَضْلِ الْعِلْمِ“ میں علم کی فضیلت میں دو آیات نقل فرمائی ہیں، ایک سورۂ مجادلہ کی: «يَرْفَعِ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ» [ المجادلۃ: ۱۱ ]”اللہ ان لوگوں کو درجوں میں بلند کرے گاجو تم میں سے ایمان لائے اور جنھیں علم دیا گیا۔“ اور دوسری سورۂ طٰہٰ کی: «وَ قُلْ رَّبِّ زِدْنِيْ عِلْمًا» [ طٰہٰ: ۱۱۴ ]”اور کہہ اے میرے رب! مجھے علم میں زیادہ کر۔“ موسیٰ اور خضر علیھما السلام کا واقعہ بھی علم کی فضیلت کی دلیل ہے۔ (دیکھیے بخاری: ۷۴)
➎ اِنَّمَا يَتَذَكَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِ: ” الْاَلْبَابِ “”لُبٌّ“ کی جمع ہے، مغز، عقل۔ جمع ہونے کی وجہ سے ترجمہ ”عقلوں والے“ کیا گیا ہے۔ ان عقلوں والوں سے مراد اہلِ ایمان ہیں نہ کہ کفار، گو وہ اپنے آپ کو کس قدر عقل و دانش والے سمجھتے ہوں، کیونکہ جب وہ اپنی عقلوں کو استعمال کر کے نصیحت حاصل ہی نہیں کرتے تو عقلوں والے کیسے ہوئے!؟ ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے چوپاؤں کی طرح بلکہ ان سے بھی ”اضل“ قرار دیا ہے۔ دیکھیے سورۂ اعراف (۱۷۹) اور انبیاء (۴۶) کی تفسیر۔