(آیت 2) ➊ اِنَّاۤ اَنْزَلْنَاۤ اِلَيْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ:”حق“ وہ ہے جو واقعہ کے عین مطابق ہو۔ اس آیت میں قرآن مجید کی مزید خوبیاں بیان فرمائیں، ایک یہ کہ پچھلی آیت میں اس کتاب کو اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ بیان فرمایا، اب یہی بات اپنا ذکر جمع متکلم کے صیغے کے ساتھ کر کے فرمائی، جس سے مقصود اپنی اور اپنے کلام کی عظمت کا اظہار ہے۔ دوسری یہ کہ ہم نے اس کتاب کو تیری طرف حق کے ساتھ نازل کیا ہے، اس کی ہر بات درست ہے، کوئی بات واقعہ کے خلاف نہیں، اس لیے اس پر عمل لازم ہے۔
➋ فَاعْبُدِ اللّٰهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّيْنَ: دین کا معنی عبادت اور اطاعت بھی ہے اور ایمان، اسلام اور احسان بھی، جیسا کہ حدیثِ جبریل میں ہے۔ اخلاص کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اپنے ہر قول و فعل میں اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کا ارادہ اور نیت رکھے۔ شوکانی نے فرمایا، یہ آیت نیت کے ضروری ہونے کی دلیل ہے اور اس بات کی بھی کہ وہ ہر قسم کے شرک اور ریا کی ملاوٹ سے خالص ہونی چاہیے، کیونکہ اخلاص کا تعلق دل سے ہے اور صحیح حدیث میں ہے کہ تمام اقوال و افعال کا دارومدار نیت پر ہے، جیسا کہ فرمایا: [ إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ ][ بخاري، بدء الوحي، باب کیف کان بدء الوحي…: ۱ ]”تمام اعمال نیتوں ہی کے ساتھ معتبر ہیں۔“ دین کو اللہ کے لیے خالص کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اللہ کی عبادت (بندگی) کے ساتھ کسی دوسرے کی بندگی شامل نہ کرے، بلکہ صرف اسی کی پرستش کرے، اسی کی ہدایت کی پیروی کرے اور اسی کے احکام پر عمل کرے۔