(آیت 71تا74) ➊ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىِٕكَةِ…: یہ ملأ اعلیٰ میں ہونے والی ایک بحث کا ذکر ہے جو آدم علیہ السلام کی پیدائش کے متعلق ہوئی۔ اس مجلس میں فرشتوں کے ساتھ ابلیس بھی تھا اور اسے بھی آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ تفصیل سورۂ اعراف (۱۱) میں دیکھیے۔ مفسر رازی نے فرمایا: ”اس قصّے کے یہاں خاص طور پر ذکر کی مناسبت یہ ہے کہ کفار کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے سے روکنے والی چیز ان کا حسد اور کبر تھا، ابلیس پر لعنت کا سبب بھی اس کا آدم علیہ السلام پر حسد اور کبر تھا، اس لیے کفار کو یہ قصّہ سنایا۔“
➋ اللہ تعالیٰ کے آدم علیہ السلام کو مٹی سے بنانے، اس میں اپنی روح پھونکنے، فرشتوں کو آدم کے سامنے سجدے کا حکم دینے اور شیطان کے سجدے سے انکار اور اس کے نتیجے کے متعلق تفصیل پہلے کئی مقامات پر گزر چکی ہے۔ مثلاً دیکھیے سورۂ بقرہ (۳۰ تا ۳۸)، حجر (۲۵ تا ۴۳)، اعراف (۱۱ تا ۲۵)، بنی اسرائیل (۶۱ تا ۶۵)، کہف (۵۰) اور سورۂ طٰہٰ (۱۱۶ تا ۱۲۳)۔