(آیت 70،69)مَا كَانَ لِيَ مِنْ عِلْمٍۭ …: سب سے اونچی مجلس سے مراد آسمانوں پر فرشتوں کی مجلس ہے۔ ” كَانَ “ ہمیشگی کا معنی دیتا ہے، اس پر نفی آنے سے نفی کی ہمیشگی مراد ہوتی ہے، یعنی فرشتوں کی مجلس میں جو بحث ہوتی ہے مجھے اس کا کبھی کچھ علم نہیں ہوتا، میں عالم الغیب نہیں، اس کے متعلق میں جو کچھ تمھیں بتاتا ہوں وہ وحی الٰہی کے ذریعے سے مجھے معلوم ہوتا ہے اور وہ بھی صرف ان بحثوں کے متعلق کہ جن کا تعلق لوگوں کی ہدایت اور انھیں خبردار کرنے اور ڈرانے سے ہوتا ہے۔ یہ وحی الٰہی میری نبوت کی بھی دلیل ہے، کیونکہ اگر وحی نہ ہوتی تو میں ملأ اعلیٰ میں ہونے والی کوئی بات تمھیں نہ بتا سکتا۔
ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ملأ اعلیٰ کی ایک مجلس کی گفتگو کا ذکر فرمایا، معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک صبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے صبح کی نماز سے رکے رہے، یہاں تک کہ قریب تھا کہ ہم سورج کی ٹکیہ دیکھ لیں، پھر آپ جلدی سے نکلے، نماز کی اقامت کہی گئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی اور اس میں اختصار سے کام لیا، جب سلام پھیرا تو آواز کے ساتھ ہمیں فرمایا، اپنی اپنی جگہ اسی طرح بیٹھے رہو، پھر فرمایا: [ أَمَا إِنِّيْ سَأُحَدِّثُكُمْ مَا حَبَسَنِيْ عَنْكُمُ الْغَدَاةَ إِنِّيْ قُمْتُ مِنَ اللَّيْلِ فَتَوَضَّأْتُ فَصَلَّيْتُ مَا قُدِّرَ لِيْ فَنَعَسْتُ فِيْ صَلاَتِيْ حَتَّی اسْتَثْقَلْتُ فَإِذَا أَنَا بِرَبِّيْ تَبَارَكَ وَ تَعَالٰی فِيْ أَحْسَنِ صُوْرَةٍ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ! قُلْتُ لَبَّيْكَ رَبِّ قَالَ فِيْمَ يَخْتَصِمُ الْمَلَأُ الْأَعْلٰی؟ قُلْتُ لَا أَدْرِيْ قَالَهَا ثَلاَثًا قَالَ فَرَأَيْتُهُ وَضَعَ كَفَّهُ بَيْنَ كَتِفَيَّ حَتّٰی وَجَدْتُّ بَرْدَ أَنَامِلِهِ بَيْنَ ثَدْيَيَّ فَتَجَلّٰی لِيْ كُلُّ شَيْءٍ وَ عَرَفْتُ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ! قُلْتُ لَبَّيْكَ رَبِّ قَالَ فِيْمَ يَخْتَصِمُ الْمَلَأُ الْأَعْلٰی؟ قُلْتُ فِي الْكَفَّارَاتِ قَالَ مَا هُنَّ؟ قُلْتُ مَشْيُ الْأَقْدَامِ إِلَی الْجَمَاعَاتِ وَ الْجُلُوْسُ فِي الْمَسَاجِدِ بَعْدَ الصَّلَوَاتِ وَ إِسْبَاغُ الْوُضُوْءِ فِي الْمَكْرُوْهَاتِ قَالَ ثُمَّ فِيْمَ؟ قُلْتُ إِطْعَامُ الطَّعَامِ وَ لِيْنُ الْكَلاَمِ وَ الصَّلاَةُ بِاللَّيْلِ وَ النَّاسُ نِيَامٌ، قَالَ سَلْ قُلْتُ اللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَسْأَلُكَ فِعْلَ الْخَيْرَاتِ وَ تَرْكَ الْمُنْكَرَاتِ وَ حُبَّ الْمَسَاكِيْنِ وَ أَنْ تَغْفِرَ لِيْ وَ تَرْحَمَنِيْ وَ إِذَا أَرَدْتَّ فِتْنَةً فِيْ قَوْمٍ فَتَوَفَّنِيْ غَيْرَ مَفْتُوْنٍ وَأَسْأَلُكَ حُبَّكَ وَ حُبَّ مَنْ يُّحِبُّكَ وَحُبَّ عَمَلٍ يُقَرِّبُ إِلٰی حُبِّكَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ إِنَّهَا حَقٌّ فَادْرُسُوْهَا ثُمَّ تَعَلَّمُوْهَا ][ترمذي، التفسیر، باب سورۃ صٓ: ۳۲۳۵ ]”سنو! میں تمھیں بتاؤں گا کہ آج صبح مجھے تم سے کس چیز نے روکے رکھا، میں رات کو اٹھا، وضو کیا اور جتنی نماز قسمت میں تھی وہ پڑھی، نماز میں مجھے نیند آگئی، حتیٰ کہ میں بوجھل ہو گیا تو اچانک میں اپنے رب کو بہترین صورت میں دیکھتا ہوں۔ اس نے فرمایا: ”اے محمد!“ میں نے کہا: ”حاضر ہوں، اے میرے رب!“ فرمایا: ”ملأ اعلیٰ کس چیز میں بحث کر رہے ہیں؟“ میں نے کہا: ”میں نہیں جانتا۔“ اللہ تعالیٰ نے یہ بات تین دفعہ کہی، تو میں نے اسے دیکھا کہ اس نے اپنی ہتھیلی میرے کندھوں کے درمیان رکھی، یہاں تک کہ میں نے اس کے پوروں کی ٹھنڈک اپنے سینے کے درمیان محسوس کی، تو میرے لیے ہر چیز روشن ہو گئی اور میں نے پہچان لی۔ پھر فرمایا: ”اے محمد!“ میں نے کہا: ”حاضر ہوں اے میرے رب!“ فرمایا: ”ملأ اعلیٰ کس چیز میں بحث کر رہے ہیں؟“ میں نے کہا: ”کفارات کے بارے میں۔“ فرمایا: ”وہ کیا ہیں؟“ میں نے کہا: ”پیدل چل کر جماعت (کے ساتھ نماز) کے لیے جانا اور نمازوں کے بعد مسجدوں میں بیٹھنا اور ناپسندیدہ وقتوں میں وضو کرنا۔“ فرمایا: ”پھر کس چیز میں؟“ میں نے کہا: ”کھانا کھلانے میں اور نرم کلام میں اور رات کو نماز کے بارے میں جب لوگ سوئے ہوئے ہوں۔“ فرمایا: ”مانگ۔“ تو میں نے یہ دعا کی: ”(اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَسْأَلُكَ“ سے لے کر ” يُقَرِّبُ إِلٰي حُبِّكَ“ تک) اے اللہ! میں تجھ سے نیکیاں کرنے کا سوال کرتا ہوں اور برائیاں ترک کرنے کا اور مسکینوں کی محبت کا اور یہ کہ تو مجھے بخش دے اور مجھ پر رحم کرے اور جب تو کسی قوم میں فتنے کا ارادہ کرے تو مجھے فتنے میں مبتلا ہوئے بغیر فوت کر لے، اور میں تجھ سے تیری محبت کا سوال کرتا ہوں اور اس شخص کی محبت کا جو تجھ سے محبت کرتا ہے اور اس عمل کی محبت کا جو تیری محبت کے قریب کر دے۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ دعا حق ہے، اسے پڑھو، پھر اسے اچھی طرح سیکھو۔“ ترمذی نے فرمایا: ”یہ حدیث حسن صحیح ہے، میں نے محمد بن اسماعیل (بخاری) سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا، یہ حدیث حسن صحیح ہے۔“ شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔