(آیت 65) ➊ قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا مُنْذِرٌ …: سورت کی ابتدا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے اور اللہ تعالیٰ کے ایک معبود برحق ہونے پر کفار کے تعجب اور انکار کا ذکر تھا اور ان کے یہ کہنے کا کہ کیا یہ ہمیں ہمارے اتنے معبودوں کے بجائے ایک ہی معبود کی عبادت کی دعوت دیتا ہے اور یہ کہ ہم تمام سرداروں کے ہوتے ہوئے اس پر وحی کیسے نازل ہو گئی؟ بلکہ یہ ساحر اور کذّاب ہے۔ کفار کی ان باتوں اور ان کے قیامت کے جھٹلانے اور اس کا مذاق اڑانے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صبر کا حکم دیا۔ اب سورت کے آخر میں پھر اسی مضمون کو دہرایا جا رہا ہے کہ آپ ان سے کہہ دیں کہ میں تو بس ایک ڈرانے والا ہوں، نہ ساحر ہوں، نہ کذّاب، نہ کچھ اور۔ صرف ڈرانے والا اس لیے کہ بشارت ماننے والوں کے لیے ہوتی ہے، منکروں کو ڈرایا ہی جاتا ہے۔
➋ وَ مَا مِنْ اِلٰهٍ اِلَّا اللّٰهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ: عبادت کے لائق صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ لفظ ” اللّٰهُ “ میں اگرچہ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات آ جاتی ہیں، کیونکہ یہ معبود برحق کا عَلم (نام) ہے، مگر یہاں اس کے واحد معبود ہونے کی دلیل کے طور پر اس کی پانچ صفات کا خاص طور پر ذکر فرمایا، پہلی صفت ” الْوَاحِدُ “ ہے، یعنی اس کے علاوہ ہر چیز جوڑا ہے، اکیلا وہی ہے۔ ” الْقَهَّارُ “ بڑے دبدبے والا، کوئی اس کے قہر کے سامنے ٹھہر نہیں سکتا۔