(آیت 34) ➊ وَ لَقَدْ فَتَنَّا سُلَيْمٰنَ …: روح المعانی کے مصنف آلوسی کے کہنے کے مطابق اس آزمائش سے سب سے زیادہ ظاہر مراد وہ واقعہ ہے جس کا ذکر حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ قَالَ سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوٗدَ لَأَطُوْفَنَّ اللَّيْلَةَ عَلٰی سَبْعِيْنَ امْرَأَةً تَحْمِلُ كُلُّ امْرَأَةٍ فَارِسًا يُجَاهِدُ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ، فَقَالَ لَهُ صَاحِبُهُ إِنْ شَاءَ اللّٰهُ فَلَمْ يَقُلْ، وَلَمْ تَحْمِلْ شَيْئًا إِلاَّ وَاحِدًا سَاقِطًا أَحَدُ شِقَّيْهِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ لَوْ قَالَهَا لَجَاهَدُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ، قَالَ شُعَيْبٌ وَ ابْنُ أَبِي الزِّنَادِ تِسْعِيْنَ وَ هُوَ أَصَحُّ ][بخاري، أحادیث الأنبیاء، باب قول اللہ تعالٰی: «و وھبنا لداوٗد سلیمان نعم العبد…»: ۳۴۲۴ ]”سلیمان بن داؤد علیھما السلام نے کہا: ”میں آج رات (اپنی) ستر (۷۰) عورتوں کے پاس چکر لگاؤں گا اور ہر عورت ایک شہ سوار کے ساتھ حاملہ ہو گی، جو اللہ کے راستے میں جہاد کرے گا۔“ تو ان کے ساتھی (فرشتے) نے کہا: ”ان شاء اللہ (کہہ لیجیے)۔“ مگر انھوں نے نہیں کہا، چنانچہ کسی کو حمل نہ ہوا سوائے ایک کے اور اس کے بھی دو پہلوؤں میں سے ایک ساقط تھا۔“ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر وہ ”ان شاء اللہ“ کہہ لیتے تو وہ سب اللہ کے راستے میں جہاد کرتے۔“ شعیب اور ابن ابی الزناد نے ”نوے (۹۰) عورتیں“ کہا اور یہی زیادہ صحیح ہے۔“ گویا سلیمان علیہ السلام کی آزمائش یہ تھی کہ ان کی خواہش کے مطابق نوے شہسوار مجاہد بیٹوں کے بجائے ان کی کرسی کا وارث بھی ایک جسد کے سوا کوئی نہ ہوا۔ جسد سے مراد وہ بچہ ہے جس کا ایک پہلو ساقط تھا۔ اہلِ علم فرماتے ہیں کہ سلیمان علیہ السلام کی تمنا مجاہد شہسوار بیٹوں کی تھی اور یہ تمنا بہت اچھی تمنا ہے، مگر ان شاء اللہ نہ کہنے کی وجہ سے ان کی آزمائش ہوئی اور ساقط پہلو والا صرف ایک بیٹا پیدا ہوا۔ یہ کوتاہی اگرچہ بھول کی وجہ سے ہوئی تھی مگر پیغمبروں کے بلند مرتبہ کی وجہ سے بھول پر بھی ان کی آزمائش ہو جاتی ہے، جس پر وہ معافی مانگتے ہیں۔ جیسا کہ آدم علیہ السلام کے متعلق اللہ تعالیٰ نے صریح الفاظ میں فرمایا کہ انھوں نے بھول کر وہ پودا چکھا: «فَنَسِيَ وَ لَمْ نَجِدْ لَهٗ عَزْمًا» [ طٰہٰ: ۱۱۵ ]”پھر وہ بھول گیا اور ہم نے اس میں ارادے کی کچھ پختگی نہ پائی۔“ مگر ان کا لباس اتر گیا اور انھوں نے معافی مانگی:ـ «رَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَا وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ»[ الأعراف: ۲۳ ]”اے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں نہ بخشا اور ہم پر رحم نہ کیا تو یقینا ہم ضرور خسارہ پانے والوں سے ہو جائیں گے۔“ اسی طرح جب سلیمان علیہ السلام کی بھول کی وجہ سے ان کی تمنا پوری نہ ہوئی تو انھوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کیا اور اس سے مغفرت کی دعا کی، فرمایا: «قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِيْ وَهَبْ لِيْ مُلْكًا لَّا يَنْۢبَغِيْ لِاَحَدٍ مِّنْۢ بَعْدِيْ اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ» [ صٓ: ۳۵ ]”اس نے کہا اے میرے رب! مجھے بخش دے اور مجھے ایسی بادشاہی عطا فرماجو میرے بعد کسی کے لائق نہ ہو، یقینا تو ہی بہت عطا کرنے والا ہے۔“ میری دانست میں اس آیت کی یہ تفسیر درست ہے، کیونکہ بخاری و مسلم وغیرہ میں مذکور واقعہ اس کے مطابق ہے اور اس میں انبیاء علیھم السلام کی شان کے خلاف بھی کوئی بات نہیں۔
➋ بعض علماء نے فرمایا، ہو سکتا ہے کہ آیات میں جس فتنے کا ذکر ہے اس سے مراد اس حدیث میں مذکور واقعہ ہو اور جسد سے مراد ساقط پہلو والا بچہ ہو، اگرچہ یہ قوی احتمال ہے، مگر جو بات ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلیمان علیہ السلام کی کوئی آزمائش تھی، جس کی وضاحت اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمائی اور نہ ہی اس نے ان کی کرسی پر ڈالے جانے والے جسد کی وضاحت فرمائی ہے۔ اس لیے اسی پر اکتفا کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے سلیمان علیہ السلام کی کوئی آزمائش فرمائی، جس پر متنبّہ ہو کر انھوں نے اللہ تعالیٰ سے بخشش کی دعا کی۔ (واللہ اعلم)
➌ ان آیات کی تفسیر میں مفسرین نے کئی ایسی باتیں لکھ دی ہیں جن کا کوئی ثبوت نہیں اور جو انبیاء کے مقام کے سراسر خلاف ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ کچھ عرصہ کے لیے اللہ تعالیٰ نے صخر نامی ایک جنّ کو سلیمان علیہ السلام کے تخت پر قابض کر دیا تھا۔ اس کے مختلف اسباب میں سے ایک سبب یہ تھا کہ سلیمان علیہ السلام کی ایک بیوی بت پرست تھی، اس کی یہ سزا ملی کہ جتنی مدت اس بیوی نے بت پرستی کی تھی اتنی مدت کے لیے سلیمان علیہ السلام تخت سلطنت سے محروم کر دیے گئے اور ان کی انگوٹھی، جس میں اسم اعظم تھا، ایک لونڈی کے واسطے سے صخر کے ہاتھ پڑ گئی، پھر اس کے ہاتھ سے وہ انگوٹھی دریا میں گر گئی اور ایک مچھلی نے اسے نگل لیا، پھر وہ مچھلی شکار ہو کر سلیمان علیہ السلام کے پاس آئی اور اس طرح انھوں نے اس کے پیٹ سے انگوٹھی کو نکال کر اپنا تخت واپس لے لیا۔ مگر یہ سارا قصّہ اہلِ کتاب سے لیا گیا ہے اور اہلِ کتاب میں سے اکثر وہ ہیں جو سلیمان علیہ السلام کو اللہ کا نبی نہیں مانتے اور ان کا مقصد انھیں زیادہ سے زیادہ بدنام کرنا ہے۔ (ابن کثیر) اس طرح کی کئی اور فضول کہانیاں جو نہ نقل سے ثابت ہیں اور نہ عقل انھیں تسلیم کرتی ہے، بے احتیاط لوگوں نے کتابوں میں بلا ثبوت لکھ دی ہیں اور واعظ اور قصّہ گو حضرات انھیں بیان کرتے رہتے ہیں۔
مفسر ابوحیان نے فرمایا: ”مفسرین نے اس فتنے اور اس جسد کے ڈالے جانے کے متعلق کئی ایسی باتیں نقل کی ہیں جن سے انبیاء کو پاک سمجھنا واجب ہے، وہ باتیں ان کی کتابوں میں دیکھی جا سکتی ہیں اور وہ ایسی ہیں جنھیں نقل کرنا جائز نہیں۔ وہ یا تو یہودیوں نے گھڑی ہیں یا زندیقوں نے۔ اللہ تعالیٰ نے بیان نہیں فرمایا کہ وہ فتنہ کیا تھا اور نہ ہی یہ کہ سلیمان علیہ السلام کی کرسی پر جو جسد ڈالا گیا وہ کیا تھا۔ سب سے قریب بات جو اس کے متعلق کہی گئی ہے وہ یہ ہے کہ فتنے سے مراد حدیث میں مذکور ستر (۷۰) عورتوں والے واقعہ میں سلیمان علیہ السلام کا ان شاء اللہ نہ کہنا ہے اور جسد سے مراد پیدا ہونے والا ادھورا بچہ ہے۔“