تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 17) اِصْبِرْ عَلٰى مَا يَقُوْلُوْنَ: اس سورت میں یہاں تک کفار کی جو باتیں ذکر ہوئی ہیں، مثلاً آپ کو ساحر و کذّاب کہنا اور ان کا یہ اعتراض کہ کیا ہم سب میں سے رسول بنانے کے لیے یہی ایک شخص رہ گیا تھا؟ اور یہ کہ اس دعوت کے پیچھے کوئی سوچی سمجھی سازش ہے اور قیامت کا مذاق اڑاتے ہوئے انھوں نے جو کچھ کہا، اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سب باتوں پر صبر کا حکم دیا اور تسلی کے لیے داؤد علیہ السلام اور چند دوسرے پیغمبروں کو یاد کرنے کا حکم دیا۔

وَ اذْكُرْ عَبْدَنَا دَاوٗدَ ذَا الْاَيْدِ: الْاَيْدِ کا معنی قوت ہے۔ آدَ الرَّجُلُ يَئِيْدُ أَيْدًا (ض) جب کوئی آدمی قوی ہو جائے تو کہتے ہیں: فَهُوَ أَيِّدٌ جیسے فرمایا: «‏‏‏‏وَ اَيَّدْنٰهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ» [ البقرۃ: ۸۷ ] اور ہم نے اسے روح القدس کے ساتھ قوت بخشی۔ داؤد علیہ السلام بڑی قوت والے تھے، اللہ تعالیٰ نے انھیں کئی قوتوں سے نوازا تھا، مثلاً جسمانی قوت جس کے ساتھ انھوں نے جالوت کو قتل کیا، قلبی شجاعت و قوت جس کی وجہ سے وہ کبھی دشمن کے مقابلے میں پیٹھ نہیں دکھاتے تھے، عبادت کی قوت جس کا اظہار روزانہ تہائی رات کی نماز اور ہمیشہ ایک دن کے ناغے کے ساتھ روزے سے ہوتا ہے، فرماں روائی کی قوت جس کے ساتھ انھوں نے گرد و پیش کی تمام مشرک قوتوں کو زیر کرکے ایک مضبوط سلطنت قائم کی۔ صحیح فیصلے کی قوت (حکم)، فیصلہ کن خطاب کی قوت، حُسن صوت کی نعمت جس کی وجہ سے پہاڑ اور پرندے بھی ان کے ساتھ تسبیح و تلاوت میں شریک ہو جاتے تھے، لوہے کو موم کرنے اور زرہیں بنانے کی قوت جس کے ذریعے سے وہ صرف اپنے ہاتھ کی کمائی کھاتے تھے۔ مزید تفصیل سورۂ بقرہ (۲۵۱)، انبیاء (۷۸، ۷۹)، نمل (۱۵، ۱۶) اور سورۂ سبا (۱۰ تا ۱۳) میں ملاحظہ فرمائیں۔

اِنَّهٗۤ اَوَّابٌ: یعنی وہ اپنے تمام معاملات میں اللہ تعالیٰ کی طرف بہت رجوع کرنے والے تھے، کوئی قدم اپنی مرضی سے نہیں اٹھاتے تھے۔ ہر وقت نماز، دعا، امید و خوف، ذکر و تلاوت اور جہاد کے ساتھ اسی کی طرف توجہ رکھتے، کبھی کوئی کمی ہو جاتی تو فوراً توبہ و استغفار کے ساتھ اس کی طرف رجوع کرتے تھے۔



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.