(آیت 13،12) ➊ كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوْحٍ وَّ عَادٌ …: یعنی ان بے چارے قریش اور ان کی ہمنوا جماعتوں کی کیا حیثیت ہے، ان سے پہلے تعداد اور قوت و شوکت میں ان سے کہیں زیادہ اقوام، یعنی قومِ نوح، میخوں والا فرعون، عاد، ثمود، قومِ لوط اور اصحاب الایکہ وہ بڑے بڑے لشکر تھے جن میں سے ہر ایک نے رسولوں کو جھٹلایا تو ان پر میرا عذاب واقع ہو گیا۔
➋ وَ فِرْعَوْنُ ذُو الْاَوْتَادِ: ” الْاَوْتَادِ “”وَتَدٌ“ کی جمع ہے، میخ۔ فرعون کو میخوں والا کہنے کا مطلب یا تو یہ ہے کہ وہ جس سے ناراض ہوتا تھا اس کے ہاتھ پاؤں میں میخیں ٹھکوا کر سزا دیا کرتا تھا، یا یہ کہ اس کی سلطنت ایسی مضبوط تھی گویا زمین میں میخیں ٹھکی ہوئی ہیں، یا اس کا لشکر اتنا زیادہ تھا کہ جہاں ٹھہرتا ہر طرف خیموں کی میخیں ہی میخیں نظر آتیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کی بنائی ہوئی عمارتیں زمین میں میخوں کی طرح ٹھکی ہوئی ہوں، جیسا کہ اہرام مصر ہزاروں سال سے زمین کے اندر گڑے ہوئے ہیں۔