(آیت 11)جُنْدٌ مَّا هُنَالِكَ مَهْزُوْمٌ مِّنَ الْاَحْزَابِ: ” جُنْدٌ “ پر تنوین تقلیل و تحقیر کے لیے ہے اور ” مَا “ اس کی مزید تاکید کے لیے ہے، جیسے کہا جاتا ہے: ”أَكَلْتُ شَيْئًا مَا، أَيْ شَيْئًا قَلِيْلًا“”میں نے تھوڑی سی چیز کھائی۔“” جُنْدٌ مَّا “ ایک حقیر سا لشکر۔ ” هُنَالِكَ “ وہاں، اس جگہ، یعنی اللہ تعالیٰ کے رسول کے مقابلے میں۔ ” الْاَحْزَابِ “”حِزْبٌ“ کی جمع ہے، یعنی مختلف لشکر، جماعتیں۔ یعنی خدائی اختیارات کی ڈینگیں مارنے والے اور مختلف جماعتوں اور لشکروں سے جمع ہونے والے اس حقیر سے لشکر کی بساط ہی کیا ہے۔ یہ تو جب بھی میدان میں آ یا شکست کھانے والا ہے، جیسا کہ سورۂ قمر میں فرمایا: «سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَ يُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ» [ القمر: ۴۵ ]”عنقریب یہ جماعت شکست کھائے گی اور یہ لوگ پیٹھیں پھیر کر بھاگیں گے۔“ بدر کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم ” سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَ يُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ “ کہتے ہوئے میدان کی طرف بڑھے، پھر احد، خندق، فتح مکہ ہر موقع پر ایسا ہی ہوا کہ لشکر کفار نے منہ کی کھائی۔