(آیت 2)بَلِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فِيْ عِزَّةٍ وَّ شِقَاقٍ:” عِزَّةٍ “ سے مراد خود ساختہ عزت، یعنی تکبّر ہے، جیسا کہ فرمایا: «وَ اِذَا قِيْلَ لَهُ اتَّقِ اللّٰهَ اَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْاِثْمِ»[ البقرۃ: ۲۰۶ ]”اور جب اس سے کہا جاتا ہے اللہ سے ڈر تو اس کی عزت اسے گناہ میں پکڑے رکھتی ہے۔“” شِقَاقٍ “”شَقٌّ“ سے باب مفاعلہ کا مصدر ہے، کسی کا دوسرے کے مقابلے میں اس طرح آنا کہ یہ ایک شق (طرف) میں ہو اور وہ دوسری شق میں، یعنی شدید مخالفت اور عداوت۔ اس جملے سے ” وَ الْقُرْاٰنِ ذِي الذِّكْرِ “ کا جواب قسم ظاہر ہو رہا ہے: ”أَيْ إِنَّ كُفْرَهُمْ لَيْسَ بِبُرْهَانٍ بَلْ هُوَ بِسَبَبِ عِزَّةٍ وَّ شِقَاقٍ“ کہ اس عزّو شرف والے، نصیحت سے بھرپور اور نجات کے لیے ضروری ہر بات پر مشتمل قرآن کی قسم ہے کہ کفار کا کفر کسی دلیل یا معقول وجہ سے نہیں، بلکہ محض تکبرّ اور شدید مخالفت کی وجہ سے ہے۔ قسم عموماً جواب قسم کی دلیل ہوتی ہے، مطلب یہ کہ ان اوصاف والا «ذِي الذِّكْرِ» قرآن شاہد اور دلیل ہے کہ اسے نہ ماننے والوں کے کفر کا باعث کوئی دلیل یا معقول وجہ نہیں بلکہ اس کی وجہ محض عزت و شقاق ہے۔ ” عِزَّةٍ “ اور ” شِقَاقٍ “ پر تنوین تکبر اور مخالفت کی شدت کے اظہار کے لیے ہے۔