اس سورت کی ابتداء میں جو حروف ہیں، ان کے متعلق جو کچھ بیان ہمیں کرنا تھا، اسے تفصیل کے ساتھ سورۃ البقرہ کی تفسیر کے شروع میں معہ اختلاف علماء کے ہم لکھ آئے ہیں۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس کے معنی میں مروی ہے کہ ”اس سے مراد «اَنَا اللهُ اُفَصِّلُ» ہے یعنی میں اللہ ہوں، میں تفصیل وار بیان فرما رہا ہوں۔“[تفسیر ابن جریر الطبری:14315]
سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے بھی یہ مروی ہے۔
”یہ کتاب قرآن کریم تیری جانب تیرے رب کی طرف سے نازل کی گئی ہے۔ اس میں کوئی شک نہ کرنا، دل تنگ نہ ہونا، اس کے پہنچانے میں کسی سے نہ ڈرنا، نہ کسی کا لحاظ کرنا، بلکہ سابقہ اولوالعزم پیغمبروں علیہم السلام کی طرح صبر و استقامت کے ساتھ کلام اللہ کی تبلیغ مخلوق الٰہی میں کرنا۔ اس کا نزول اس لیے ہوا ہے کہ تو کافروں کو ڈرا کر ہوشیار اور چوکنا کر دے۔ یہ قرآن مومنوں کے لئے نصیحت و عبرت، وعظ و پند ہے۔“
اس کے بعد تمام دنیا کو حکم ہوتا ہے کہ ”اس نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری پیروی کرو، اس کے قدم بہ قدم چلو۔ یہ تمہارے رب کا بھیجا ہوا ہے، کلام اللہ تمہارے پاس لایا ہے۔ وہ اللہ تم سب کا خالق، مالک ہے اور تمام جان داروں کا رب ہے۔ خبردار! ہرگز ہرگز نبی سے ہٹ کر دوسرے کی تابعداری نہ کرنا ورنہ حکم عدولی پر سزا ملے گی۔ افسوس! تم بہت ہی کم نصیحت حاصل کرتے ہو۔“
جیسے فرمان ہے کہ ” گو تم چاہو لیکن اکثر لوگ اپنی بے ایمانی پر اڑے ہی رہیں گے۔ “[12-يوسف:103]
اور آیت میں ہے: «وَاِنْ تُطِعْ اَكْثَرَ مَنْ فِي الْاَرْضِ يُضِلُّوْكَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ»[6-الأنعام:116] یعنی ” اگر تو انسانوں کی کثرت کی طرف جھک جائے گا تو وہ بھی تجھے بہکا کر ہی چین لیں گے۔ “
سورۃ یوسف میں فرمان ہے: ” اکثر لوگ اللہ کو مانتے ہوئے بھی شرک سے باز نہیں رہتے۔ “[12-يوسف:106]