(آیت 113) ➊ وَ بٰرَكْنَا عَلَيْهِ وَ عَلٰۤى اِسْحٰقَ: ” عَلَيْهِ “ سے مراد ابراہیم اور اسماعیل علیھما السلام میں سے کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ برکت میں یہ چیز بھی شامل ہے کہ انھیں بہت اولاد عطا فرمائی اور ان کی اولاد میں نبوت کا سلسلہ رکھا۔ شاہ عبدالقادر لکھتے ہیں: ”دونوں“ کہا دونوں بیٹوں کو، دونوں سے بہت اولاد پھیلی، اسحاق علیہ السلام کی اولاد میں نبی گزرے بنی اسرائیل کے اور اسماعیل علیہ السلام کی اولاد ہیں عرب، جن میں ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ہوئے۔“(موضح)
➋ وَ مِنْ ذُرِّيَّتِهِمَا مُحْسِنٌ وَّ ظَالِمٌ …: یعنی ان کی اولاد میں سے نیک بھی ہوں گے، بد بھی، عدل کرنے والے بھی ہوں گے اور اپنی جان پر صاف ظلم کرنے والے بھی۔ شیخ عبدالرحمان السعدی نے فرمایا: ”شاید یہ کہنے کا مقصد یہ وہم دور کرنا ہو جو بعض لوگوں کو ” وَ بٰرَكْنَا عَلَيْهِ وَ عَلٰۤى اِسْحٰقَ “ سے پیدا ہو سکتا تھا کہ اس کا تقاضا ہے کہ ان کی اولاد میں بھی وہ برکت جاری رہے اور برکت مکمل تب ہوتی جب ساری اولاد نیک ہو، تو اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ اولاد میں سے نیک و بد ہر قسم کے لوگ ہوں گے۔“ یعنی محض خاندان اور باپ دادا کے ساتھ نسبت اللہ تعالیٰ کے ہاں کچھ حیثیت نہیں رکھتی۔ اس کی مثال امتِ مسلمہ میں بعض لوگوں کا اہلِ بیت کے متعلق یہ خیال ہے کہ سید بادشاہ جو کچھ بھی کرتے رہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حسن و حسین رضی اللہ عنھما کی اولاد ہونے کی وجہ سے بخشے بخشائے ہیں، جب کہ یہ خیال باطل ہے۔ کیونکہ اگر نبی کی اولاد ہونا ہی بخشش کے لیے کافی ہو تو سارے انسان ہی آدم و نوح علیھما السلام جیسے جلیل القدر پیغمبروں کی اولاد ہیں، اس لیے سب ہی بخشے ہوئے ہونے چاہییں۔