(آیت 101)فَبَشَّرْنٰهُ بِغُلٰمٍ حَلِيْمٍ: یعنی ہم نے ان کی دعا قبول کی اور انھیں ایک بہت حلم والے لڑکے کی بشارت دی۔ حلم میں صبر، حسنِ خلق، حوصلے کی وسعت اور زیادتی کرنے والوں سے درگزر شامل ہے۔ عموماً اس کا ترجمہ بردباری کیا جاتا ہے۔ یہ بیٹا اسماعیل علیہ السلام تھا۔ ابراہیم علیہ السلام نے یا تو یہ دعا کافی عمر ہونے کے بعد کی، یا ان کی دعا اور اس کی قبولیت میں کئی سال کا وقفہ ہوا، کیونکہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہا: «اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ وَهَبَ لِيْ عَلَى الْكِبَرِ اِسْمٰعِيْلَ وَ اِسْحٰقَ»[ إبراہیم: ۳۹ ]”سب تعریف اس اللہ کی ہے جس نے مجھے بڑھاپے کے باوجود اسماعیل اور اسحاق عطا کیے۔“ ابراہیم علیہ السلام نے اسماعیل علیہ السلام اور ان کی والدہ کو وادی غیر ذی زرع (مکہ) میں چھوڑا، جہاں اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے آب زم زم مہیا فرمایا اور قبیلہ بنو جرہم کو لابسایا۔