(آیت 88)فَنَظَرَ نَظْرَةً فِي النُّجُوْمِ: ابراہیم علیہ السلام نے جب دیکھا کہ محض زبانی نصیحت سے وہ بتوں کے بے بس اور بے اختیار ہونے کو ماننے کے لیے تیار نہیں بلکہ اس مقصد کے لیے عملاً انھیں توڑنا پڑے گا تو انھوں نے پہلے تو اعلان کیا کہ اللہ کی قسم! جب تم کہیں گئے تو میں تمھارے بتوں کی کوئی تدبیر ضرور کروں گا۔ (دیکھیے انبیاء: ۵۷) پھر مناسب موقع کا انتظار کرنے لگے، کیونکہ ان کی موجودگی میں یہ کام نہیں ہو سکتا تھا۔ اسی دوران ان کی قوم کے ایک جشن یا میلے کا دن آ گیا، انھوں نے ابراہیم علیہ السلام کو اس میں شرکت کی دعوت دی۔ ابراہیم علیہ السلام چاہتے تھے کہ جب وہ لوگ اپنے میلے میں چلے جائیں اور ان کے بتوں کے پاس کوئی نہ رہے تو اطمینان کے ساتھ انھیں توڑ دیں، اس لیے انھوں نے پہلے تو ستاروں میں ایک نگاہ ڈالی۔ ستاروں میں نگاہ ڈالنے کا مقصد کیا تھا؟ بعض مفسرین نے فرمایا کہ یہ محاورہ ہے جو غوروفکر کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، کیونکہ جب کوئی غور طلب معاملہ سامنے آتا ہے تو آدمی آسمان کی طرف دیکھتا ہے، یعنی ابراہیم علیہ السلام نے ستاروں میں ایک نگاہ ڈالی، کچھ سوچا اور کہا کہ میں تو بیمار ہوں، اور بعض مفسرین نے فرمایا کہ ابراہیم علیہ السلام کی قوم بتوں کے علاوہ سورج، چاند اور ستاروں کی پرستش بھی کرتی تھی اور ستاروں کو حوادث زمانہ میں مؤثر سمجھتی تھی، اس لیے ابراہیم علیہ السلام نے انھیں مغالطہ دینے کے لیے کہا کہ میں تو بیمار ہوں، یا بیمار ہونے والا ہوں، تاکہ وہ سمجھیں کہ انھوں نے یہ بات ستاروں کو دیکھ کر معلوم کی ہے۔