(آیت 63)اِنَّا جَعَلْنٰهَا فِتْنَةً لِّلظّٰلِمِيْنَ: یہاں ”اَلظَّالِمِيْنَ“ سے مراد کفارو مشرکین ہیں اور ”زقوم“ انھی کے لیے آزمائش ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان سنایا: «اِنَّ شَجَرَتَ الزَّقُّوْمِ (43) طَعَامُ الْاَثِيْمِ (44) كَالْمُهْلِ يَغْلِيْ فِي الْبُطُوْنِ (45) كَغَلْيِ الْحَمِيْمِ»[ الدخان: ۴۳ تا ۴۶ ]”بے شک زقوم کا درخت گناہ گار کا کھانا ہے۔ پگھلے ہوئے تانبے کی طرح، پیٹوں میں کھولتا ہے۔ گرم پانی کے کھولنے کی طرح۔“ اور یہ فرمان: «ثُمَّ اِنَّكُمْ اَيُّهَا الضَّآلُّوْنَ الْمُكَذِّبُوْنَ (51) لَاٰكِلُوْنَ مِنْ شَجَرٍ مِّنْ زَقُّوْمٍ»[ الواقعۃ: ۵۱، ۵۲ ]”پھر بے شک تم اے گمراہو! جھٹلانے والو! یقینا تھوہر کے پودے میں سے کھانے والے ہو۔“ تو ایمان والوں کو اسے ماننے میں کوئی الجھن نہیں ہوئی، کیونکہ انھیں یقین تھا کہ اللہ اور اس کا رسول جو فرماتے ہیں وہ حق ہے۔ وہ کفار ہی تھے جنھوں نے کہا، آگ میں درخت کیسے ہو سکتا ہے؟ مزید دیکھیے سورۂ بنی اسرائیل (۶۰)۔