(آیت 35) اِنَّهُمْ كَانُوْۤا اِذَا قِيْلَ لَهُمْ …: یہاں ” لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ “ سے پہلے ”قُوْلُوْا“(کہو) محذوف ہے۔ ”إِنَّ“ تعلیل یعنی عذاب کی وجہ بیان کرنے کے لیے ہے۔ یعنی ان کے عذاب کی وجہ یہ ہے کہ جب انھیں کہا جاتا ہے کہ ”لا الٰہ الا اللہ“ کہو اور توحید کا اقرار کرو تو اس سے تکبر کرتے تھے، یعنی اس سب سے بڑی حقیقت کو بھی ماننے سے انکار کر دیتے تھے اور اصل تکبر یہی ہے کہ حق بات کا انکار کر دیا جائے۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ كَانَ فِيْ قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ كِبْرٍ، قَالَ رَجُلٌ إِنَّ الرَّجُلَ يُحِبُّ أَنْ يَكُوْنَ ثَوْبُهُ حَسَنًا وَنَعْلُهُ حَسَنَةً، قَالَ إِنَّ اللّٰهَ جَمِيْلٌ يُحِبُّ الْجَمَالَ، الْكِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ ][ مسلم، الإیمان، باب تحریم الکبر و بیانہ: ۹۱ ]”وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو گا جس کے دل میں ذرہ برابر تکبر ہو گا۔“ ایک آدمی نے پوچھا: ”آدمی پسند کرتا ہے کہ اس کا کپڑا اچھا ہو اور اس کا جوتا اچھا ہو۔ (کیا یہ بھی تکبر ہے)؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک اللہ جمیل ہے، جمال کو پسند کرتا ہے، تکبر تو حق سے اکڑ جانے اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔“