(آیت 23،22) ➊ اُحْشُرُوا الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا وَ اَزْوَاجَهُمْ …: یہاں ” الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا “ سے مراد کفار و مشرکین ہیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ انھیں اور ان کے ”من دون اللہ“ معبودوں کو جہنم کی طرف لے جانے کا حکم ہو گا اور ظاہر ہے موحد مسلمان اللہ کے سوا کسی معبود کی پرستش نہیں کرتے۔ نیز دیکھیے سورۂ انعام (۸۲) اور لقمان (۱۳)” وَ اَزْوَاجَهُمْ “ طبری میں علی بن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ ابن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی ہے: ”أَزْوَاجٌ“(جوڑوں) سے مراد ان جیسے دوسرے لوگ ہیں۔“ بیویاں بھی مراد ہو سکتی ہیں، جو کفرو شرک میں ان کی ہم نوا تھیں۔یعنی قیامت قائم ہونے کے ساتھ فرشتوں کو حکم ہوگا کہ کفار ومشرکین کو مومنوں سے الگ کرو اور ان میں سے ہر ہر قسم کو الگ الگ اکٹھا کرو، مثلاً زانیوں کو زانیوں کے ساتھ، سود خوروں کو سود خوروں کے ساتھ، چوروں کو چوروں کے ساتھ، اسی طرح مشرک خاوندوں کو ان کی مشرک بیویوں کے ساتھ اکٹھا کرنے کا حکم ہو گا، جیسا کہ ایمان والے اپنی بیویوں کے ساتھ ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «جَنّٰتُ عَدْنٍ يَّدْخُلُوْنَهَا وَ مَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَآىِٕهِمْ وَ اَزْوَاجِهِمْ وَ ذُرِّيّٰتِهِمْ» [ الرعد: ۲۳ ]”ہمیشگی کے باغات، جن میں وہ داخل ہوں گے اور ان کے باپ دادوں اور ان کی بیویوں اور ان کی اولادوں میں سے جو نیک ہوئے۔“ ان کے ساتھ ان کے بتوں اور دوسرے باطل معبودوں کو بھی اکٹھا کر کے جہنم کے راستے کی طرف لے جانے کا حکم ہو گا، جن کی وہ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر عبادت کرتے رہے تھے۔ جن میں شیاطین اور وہ جنّ اور انسان بھی شامل ہوں گے جو اپنی عبادت کروانے پر خوش تھے۔ مقصد انھیں ذلیل کرنا ہوگا کہ اب اپنے خداؤں سے کہو کہ تمھاری مدد کریں۔ البتہ فرشتے، انبیاء اور صلحاء، جنھیں وہ پوجتے رہے تھے، وہ اس سے مستثنیٰ ہوں گے۔ دیکھیے سورۂ انبیاء (۹۸ تا ۱۰۳)۔
➋ فَاهْدُوْهُمْ اِلٰى صِرَاطِ الْجَحِيْمِ: ہدایت کا لفظ یہاں ان کا مذاق اڑانے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔