(آیت 11)فَاسْتَفْتِهِمْ اَهُمْ اَشَدُّ خَلْقًا …: کفار آخرت کو ماننے کے لیے تیار نہیں تھے، ان کا کہنا تھا کہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونا ممکن ہی نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں ان کے جواب میں دو دلیلیں ذکر فرمائی ہیں، پہلی یہ کہ اس سے پہلے ہم جو کچھ پیدا کر چکے ہیں، جن کا اس سورت میں ذکر ہے، یعنی آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی مخلوق، صافات، زاجرات، تالیات، فرشتے، شیاطین اور ستارے وغیرہ، انھیں پیدا کرنا مشکل ہے یا ان لوگوں کو دوبارہ پیدا کرنا؟ ظاہر ہے اتنی عظیم مخلوقات کے مقابلے میں انسان بے چارے کی حیثیت ہی کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے دوبارہ زندہ نہ کر سکے، جیسا کہ فرمایا: «لَخَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ اَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ» [ المؤمن: ۵۷ ]”یقینا آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا لوگوں کے پیدا کرنے سے زیادہ بڑا (کام) ہے اور لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔“ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ یٰس (۸۱)۔
دوسری دلیل یہ ہے کہ ہم نے انھیں ایک چپکتے ہوئے گارے سے پیدا کیا ہے (جو مٹی اور پانی کے ملنے سے بنتا ہے) اور یہ مر کر پھر مٹی ہو جائیں گے۔ تو جب پہلی دفعہ ہم نے انھیں مٹی سے پیدا کر لیا تو اسی مٹی سے ہم انھیں دوبارہ کیوں پیدا نہیں کر سکتے، جب کہ اس سے پہلے ہم ایک مرتبہ انھیں پیدا کر بھی چکے ہیں!؟ (دیکھیے حج: ۵) اور ہر عقل مند جانتا ہے کہ دوسری مرتبہ بنانا پہلی مرتبہ سے آسان ہوتا ہے، یہی حقیقت اللہ تعالیٰ نے سورۂ روم میں بیان کرتے ہوئے فرمایا: «وَ هُوَ الَّذِيْ يَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُهٗ وَ هُوَ اَهْوَنُ عَلَيْهِ» [ الروم: ۲۷ ]”اور وہی ہے جو خلق کو پہلی بار پیدا کرتا ہے، پھراسے دوبارہ پیدا کرے گا اور وہ اسے زیادہ آسان ہے۔“