(آیت 10)اِلَّا مَنْ خَطِفَ الْخَطْفَةَ …: یعنی شیاطین ملأ اعلیٰ کی کسی بات پر کان نہیں لگا سکتے، سوائے اس بات کے جسے کوئی شیطان دفعتاً اچک کر لے جائے، تو ایسی صورت میں ایک چمکتا ہوا شعلہ اس کا پیچھا کرتا ہے۔ چنانچہ کبھی تو وہ شعلہ نیچے کے شیطان کو وہ بات پہنچانے سے پہلے ہی لگ کر اسے ہلاک کر ڈالتا ہے اور کبھی پہنچانے کے بعد، پھر وہ بات کئی شیاطین سے منتقل ہوتی ہوئی کسی کاہن تک پہنچ جاتی ہے، جو اس میں سو جھوٹ ملا کر لوگوں کے درمیان پھیلا دیتا ہے۔ استاذ محمد عبدہٗ رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ”یہ بحث حکماء اور علماء کے مابین مختلف فیہ چلی آئی ہے کہ آیا یہی تارے شہابِ ثاقب کا بھی کام دیتے ہیں یا وہ شہاب ان کے علاوہ ہیں، یا ان تاروں کی گرمی سے آگ پیدا ہو کر ہی انگارا بن جاتا ہے۔“ شاہ عبد القادر لکھتے ہیں: ”انھی تاروں کی روشنی سے آگ نکلتی ہے جس سے شیطانوں کو مار پڑتی ہے، جیسے سورج سے اور آتشی شیشے سے۔“(موضح) ان آیات کی مفصل تفسیر کے لیے دیکھیے سورۂ حجر (۱۶تا۱۸)، شعراء (۲۱۰ تا ۲۱۲ اور ۲۲۲، ۲۲۳) اور سورۂ جن (۸، ۹)۔