(آیت 5) ➊ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا بَيْنَهُمَا: مراد اس سے پوری کائنات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بار بار اپنے اکیلے رب ہونے کو اکیلا معبود ہونے کی دلیل کے طور پر پیش فرمایا ہے کہ جب ہر چیز کا مالک اور رب میں ہوں اور تم بھی مانتے ہو کہ ہر چیز پیدا میں نے کی اور اس کی پرورش بھی میں ہی کرتا ہوں، تو عبادت کسی اور کی کیوں ہو؟ داتا اور دستگیر کوئی اور کس طرح بن گیا؟ مصیبت کے وقت کسی اور کو پکارا کیوں جائے؟
➋ وَ رَبُّ الْمَشَارِقِ: ” الْمَشَارِقِ “”مَشْرِقٌ“ کی جمع ہے، طلوع ہونے کی جگہ۔ سورج ہمیشہ مشرقی سمت کے درمیان سے طلوع نہیں ہوتا، بلکہ گرمیوں میں اس کا مشرق شمال کی طرف سرکتا جاتا ہے اور سردیوں میں جنوب کی طرف اور ہر روز سورج کے طلوع ہونے کی جگہ الگ ہوتی ہے، اس لحاظ سے سال بھر میں سورج کے ۳۶۵ مشرق ہوتے ہیں۔ پھر اس کائنات میں صرف سورج ہی گردش نہیں کرتا، چاند اور بے شمار سیارے طلوع و غروب ہوتے ہیں۔ ہر ایک کے طلوع ہونے کے اپنے اپنے مقامات ہیں، جن میں سورج کے مشرقوں کی طرح تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ اس لحاظ سے مشرقوں کی تعداد ہمارے حساب سے باہر ہے۔ یہاں صرف مشارق کے ذکر پر اکتفا فرمایا، کیونکہ ظاہر ہے کہ جو مشرقوں کا رب ہے مغربوں کا رب بھی وہی ہے۔ سورۂ معارج (۷۰) میں مشارق و مغارب دونوں کے رب کی قسم کھائی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے رب المشارق ہونے کا مطلب یہ ہے کہ سورج اور ان تمام سیاروں کی نقل و حرکت کا مالک وہی ہے، کسی اور کا اس میں کچھ دخل نہیں۔ ” رَبُّ الْمَشَارِقِ “ میں ایک اور نکتہ بھی ہے کہ سورج اپنی روزانہ کی گردش میں اس زمین کے مختلف حصوں پر ایک دوسرے کے بعد پے در پے طلوع ہوتا ہے۔ جہاں زمین کا کوئی حصہ سورج کے سامنے آتا ہے وہی اس کا مشرق ہے۔ اس لحاظ سے بھی نہ مشرقوں کا شمار ہے نہ مغربوں کا۔ (الوسیط)