(آیت 1) وَ الصّٰٓفّٰتِ صَفًّا: قسم عموماً تاکید کے لیے استعمال کی جاتی ہے، جب مخاطب کسی بات کا منکر ہو۔ بعض اوقات کسی بات کی عظمت اور اہمیت واضح کرنے کے لیے بھی قسم اٹھائی جاتی ہے۔ قرآن مجید کی اکثر قسموں پر غور کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ قسم عموماً اس بات کی دلیل ہوتی ہے جو قسم کے بعد بیان ہوتی ہے۔ ” الصّٰٓفّٰتِ “”صَافَّةٌ “ کی جمع ہے، صف بنانے والی جماعت۔ ان جماعتوں سے اکثر مفسرین نے فرشتے مراد لیے ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ صفت خود ان کی زبانی بیان فرمائی ہے، فرمایا: «وَ اِنَّا لَنَحْنُ الصَّآفُّوْنَ (165) وَ اِنَّا لَنَحْنُ الْمُسَبِّحُوْنَ»[ الصافات: ۱۶۵، ۱۶۶ ]”اور بلاشبہ ہم، یقینا ہم صف باندھنے والے ہیں۔ اور بلاشبہ ہم، یقینا ہم تسبیح کرنے والے ہیں۔“ حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ فُضِّلْنَا عَلَی النَّاسِ بِثَلاَثٍ، جُعِلَتْ صُفُوْفُنَا كَصُفُوْفِ الْمَلَائِكَةِ وَ جُعِلَتْ لَنَا الْأَرْضُ كُلُّهَا مَسْجِدًا وَ جُعِلَتْ تُرْبَتُهَا لَنَا طَهُوْرًا إِذَا لَمْ نَجِدِ الْمَاءَ][مسلم، المساجد و مواضع الصلاۃ: ۵۲۲ ]”ہمیں دوسرے لوگوں پر تین باتوں میں فضیلت دی گئی ہے، ہماری صفیں فرشتوں کی صفوں کی طرح بنائی گئی ہیں اور ہمارے لیے ساری زمین مسجد بنا دی گئی ہے اور ہمارے لیے اس کی مٹی پاک کرنے والی بنا دی گئی ہے جب ہمیں پانی نہ ملے۔“ اور جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ أَلَا تَصُفُّوْنَ كَمَا تَصُفُّ الْمَلَائِكَةُ عِنْدَ رَبِّهَا؟ فَقُلْنَا يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ! وَكَيْفَ تَصُفُّ الْمَلَائِكَةُ عِنْدَ رَبِّهَا؟ قَالَ يُتِمُّوْنَ الصُّفُوْفَ الْأُوَلَ وَيَتَرَاصُّوْنَ فِي الصَّفِّ ][ مسلم، الصلاۃ، باب الأمر بالسکون في الصلاۃ…: ۴۳۰ ]”کیا تم اس طرح صفیں نہیں بناتے جس طرح فرشتے اپنے رب کے پاس صفیں بناتے ہیں؟“ ہم نے کہا: ”اے اللہ کے رسول! فرشتے اپنے رب کے پاس کس طرح صفیں بناتے ہیں؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ (پہلے) پہلی صفیں مکمل کرتے ہیں اور صف میں چونا گچ ہو کر کھڑے ہوتے ہیں۔“