یہ اور ان جیسی آیتوں کی تفسیر میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول تو یہ ہے کہ ”اللہ تعالیٰ مومنوں کو باہم اعتماد کا حکم دیتا ہے اور اختلاف و فرقہ بندی سے روکتا ہے اس لیے کہ اگلے لوگ اللہ کے دین میں پھوٹ ڈالنے ہی سے تباہ ہوئے تھے۔“
مسند میں ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سیدھی لکیر کھینچی اور فرمایا: اللہ کی سیدھی راہ یہی ہے پھر اس کے دائیں بائیں اور لکیریں کھینچ کر فرمایا: ان تمام راہوں پر شیطان ہے جو اپنی طرف بلا رہا ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کا ابتدائی حصہ تلاوت فرمایا ۔ [مسند احمد:465/1:حسن]
اسی حدیث کی شاہد وہ حدیث ہے جو مسند وغیرہ میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سامنے ایک سیدھی لکیر کھینچی اور فرمایا: یہ شیطانی راہیں ہیں اور بیچ کی لکیر پر انگلی رکھ کر اس آیت کی تلاوت فرمائی ۔ [سنن ابن ماجه:11،قال الشيخ الألباني:صحیح] ابن ماجہ میں اور بزار میں بھی یہ حدیث ہے۔
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا صراط مستقیم کیا ہے؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ”جس پر ہم نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑا اسی کا دوسرا سرا جنت میں جا ملتا ہے اس کے دائیں بائیں بہت سی اور راہیں ہیں جن پر لوگ چل رہے ہیں اور دوسروں کو بھی اپنی طرف بلا رہے ہیں جو ان راہوں میں سے کسی راہ ہو لیا وہ جہنم میں پہنچا“ پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:14170/1:اسنادہ ضعیف جدا]
حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے صراط مستقیم کی مثال بیان فرمائی، اس راستے کے دونوں طرف دو دیواریں ہیں جن میں بہت سے دروازے ہیں اور سب چوپٹ کھلے پڑے ہیں اور ان پر پردے لٹکے ہوئے ہیں اس سیدھی راہ کے سرے پر ایک پکارنے والا ہے پکارتا رہتا ہے کہ لوگو! تم سب اس صراط مستقیم پر آ جاؤ راستے میں بکھر نہ جاؤ، بیچ راہ کے بھی ایک شخص ہے، جب کوئی شخص ان دروازوں میں سے کسی کو کھولنا چاہتا ہے تو وہ کہتا ہے خبردار اسے نہ کھول، کھولو گے تو سیدھی راہ سے دور نکل جاؤ گے -پس سیدھی راہ اسلام ہے دونوں دیواریں اللہ کی حدود ہیں کھلے ہوئے دروازے اللہ کی حرام کردہ چیزیں ہیں نمایاں شخص اللہ کی کتاب ہے اوپر سے پکارنے والا اللہ کی طرف کا نصیحت کرنے والا ہے جو ہر مومن کے دل میں ہے ۔ [سنن ترمذي:2859، قال الشيخ الألباني:صحیح]
اس نکتے کو نہ بھولنا چاہیئے کہ اپنی راہ کیلئے «سَبِیلِ» واحد کا لفظ بولا گیا اور گمراہی کی راہوں کے لیے «سُّبُلَ» جمع کا لفظ استعمال کیا گیا اس لیے کہ راہ حق ایک ہی ہوتی ہے اور ناحق کے بہت سے طریقے ہوا کرتے ہیں۔
جیسے آیت «اَللّٰهُ وَلِيُّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا يُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ»[2-البقرة:257] میں «لظُّلُمٰتِ» کو جمع کے لفظ سے اور «النُّوْرِ» کو واحد کے لفظ سے ذکر کیا گیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ «قُلْ تَعَالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ» سے تین آیتوں [6-الأنعام:151تا153] تک تلاوت کر کے فرمایا: تم میں سے کون کون ان باتوں پر مجھ سے بیعت کرتا ہے؟ پھر فرمایا: جس نے اس بیعت کو اپنا لیا اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے اور جس نے ان میں سے کسی بات کو توڑ دیا اس کی دو صورتیں ہیں یا تو دنیا میں ہی اس کی سزا شرعی اسے مل جائے گی یا اللہ تعالیٰ آخرت تک اسے مہلت دے پھر رب کی مشیت پر منحصر ہے اگر چاہے سزا دے اگر چاہے تو معاف فرما دے ۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:8077/5:ضعیف]