(آیت 75) ➊ لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ نَصْرَهُمْ: فرمایا، وہ ان کی مدد کی طاقت نہیں رکھتے، نہ دنیا میں نہ آخرت میں۔ دنیا میں ان کی مدد کا یہ حال ہے کہ وہ اپنے عابدوں کی مدد تو کیا کریں گے وہ اپنی بقا، حفاظت اور دوسری ضروریات کے لیے اپنی عبادت کرنے والوں کے محتاج ہیں اور آخرت میں وہ ان کے دشمن بن جائیں گے اور ان کی عبادت کا انکار کر دیں گے۔ دیکھیے سورۂ احقاف (۶)۔
➋ وَ هُمْ لَهُمْ جُنْدٌ مُّحْضَرُوْنَ: اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں، پہلا یہ کہ ” هُمْ “ سے مراد مشرکین اور ” لَهُمْ “ سے مراد ان کے معبود ہوں، یعنی بجائے اس کے کہ ان کے معبود ان کی مدد کریں یہ عبادت کرنے والے ہر وقت ان کے مددگار اور خدمت گار فوج بنے ہوئے ہیں، ان کے آستانے تعمیر کرتے ہیں، ان کے آستانوں اور قبروں پر جھاڑو دیتے ہیں، انھیں چمکا کر رکھتے ہیں، وہاں لنگر کا انتظام کرتے ہیں، ان کی حمایت میں لڑتے جھگڑتے ہیں اور ان کی مشکل کُشائی اور حاجت روائی کے جھوٹے قصّے بیان کر کے لوگوں کو ان کا گرویدہ بناتے ہیں۔ اگر عبادت کرنے والوں کے یہ لشکر نہ ہوں تو ان کی خدائی ایک لمحہ نہیں چل سکتی۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ ” هُمْ “ سے مراد باطل معبود اور ” لَهُمْ “ سے مراد مشرکین ہوں، یعنی وہ جھوٹے معبود قیامت کے دن ان کفار کی عبادت کا انکار کر کے انھیں عذاب دینے دلوانے والے لشکر بن جائیں گے۔