(آیت 49) ➊ مَا يَنْظُرُوْنَ اِلَّا صَيْحَةً وَّاحِدَةً …: ان کے جواب میں یہ نہیں کہا گیا کہ قیامت فلاں وقت آئے گی، بلکہ ان کے سامنے قیامت کے چند ہولناک مناظر کا نقشہ پیش کر دیا گیا ہے۔
➋ اِلَّا صَيْحَةً وَّاحِدَةً: ایک ہی چیخ سے مراد اسرافیل علیہ السلام کا پہلی دفعہ صور میں پھونکنا ہے، جس سے تمام مخلوق مر جائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، یہ لوگ جس قیامت کا انتظار کر رہے ہیں اس کے لیے ہمیں کسی لمبی چوڑی تیاری کی ضرورت نہیں، صرف ایک مرتبہ صور میں پھونک دیا جائے گا، جس کی چیخ کی آواز سے سب لوگ بے ہوش ہو کر مر جائیں گے۔
➌ تَاْخُذُهُمْ وَ هُمْ يَخِصِّمُوْنَ: ” يَخِصِّمُوْنَ “ اصل میں ” يَخْتَصِمُوْنَ“(افتعال) ہے۔ تاء کو صاد کے ساتھ بدل کر صاد میں ادغام کر دیا اور صاد کی موافقت کے لیے خاء کو بھی کسرہ دے دیا۔ ادغام سے ان کے جھگڑنے کی شدت بیان کرنا مقصود ہے۔ یعنی وہ قیامت آہستہ آہستہ نہیں آئے گی، جسے دیکھ کر وہ کچھ سنبھل جائیں، بلکہ سب لوگ اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہوں گے اور پورے زور و شور سے ایک دوسرے سے جھگڑا اور بحث کر رہے ہوں گے کہ اچانک ایک چیخ سے قیامت برپا ہو جائے گی۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ تَقُوْمُ السَّاعَةُ وَالرَّجُلُ يَحْلُبُ اللِّقْحَةَ فَمَا يَصِلُ الْإِنَاءُ إِلٰی فِيْهِ حَتّٰی تَقُوْمَ وَ الرَّجُلَانِ يَتَبَايَعَانِ الثَّوْبَ فَمَا يَتَبَايَعَانِهِ حَتّٰی تَقُوْمَ وَالرَّجُلُ يَلِطُ فِيْ حَوْضِهِ فَمَا يَصْدُرُ حَتّٰی تَقُوْمَ ][مسلم، الفتن، باب قرب الساعۃ: ۲۹۵۴ ]”قیامت (اتنی اچانک) قائم ہو گی کہ آدمی اونٹنی کا دودھ دوہ رہا ہو گا، پھر برتن اس کے منہ تک نہیں پہنچے گا یہاں تک کہ وہ قائم ہو جائے گی اور دو آدمی کپڑے کی خریدو فروخت کر رہے ہوں گے، تو ابھی سوداکر نہیں پائیں گے کہ وہ قائم ہو جائے گی اور آدمی اپنے حوض کی لپائی کر رہا ہو گا، ابھی واپس نہیں ہو گا کہ وہ قائم ہو جائے گی۔“