(آیت 47) ➊ وَ اِذَا قِيْلَ لَهُمْ اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ …: یعنی جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمھیں جو کچھ دیا ہے، اس میں فقراء اور مساکین کے جو حقوق ہیں وہ بھی ادا کرو، تو جواب یہ دیتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ کا ارادہ ہوتا تو وہ ان فقراء و مساکین کو خود ہی دے دیتا۔ جب اللہ تعالیٰ ہی کا ارادہ انھیں دینے کا نہیں تو ہم انھیں کیوں دیں؟ تم مسلمان تو صاف گمراہی میں پڑے ہوئے ہو کہ ایسے لوگوں کا پیٹ بھرنا چاہتے ہو جن کا پیٹ اللہ نہیں بھرنا چاہتا۔
➋ مشرکین کی یہ بات محض کٹ حجتی ہے، کیونکہ وہ خود بھی خوب جانتے تھے کہ غریبوں کی مدد کرنا بہت اچھا کام ہے۔ رہا اللہ کے چاہنے کا بہانہ، تو یہ محض اپنی بخیلی چھپانے کے لیے ہے، ورنہ اللہ تعالیٰ نے یہ دنیا امتحان ہی کے لیے بنائی ہے، فقیری اور امیری دونوں آزمائشیں ہیں، فقیر کی آزمائش صبر سے ہے اور غنی کی اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنے سے۔ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی مشیّت یعنی اس کے چاہنے کا سہارا صرف اس وقت تک لیتے ہیں جب تک خود مجرم ہوں۔ جب کوئی دوسرا مجرم ہو اور ان کی حق تلفی ہو رہی ہو تو کبھی اللہ کی مشیّت کا سہارا نہیں لیں گے۔ مثلاً اگر کوئی ڈاکو ان کا مال چھین لے، یا ان کا آدمی قتل کر دے تو کبھی یہ کہہ کر خاموش نہیں ہوں گے کہ اللہ نے ایسے ہی چاہا، اس لیے ٹھیک ہو گیا۔
➌ اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کفار و مشرکین کو صرف توحید و رسالت ہی کی دعوت نہیں دیتے تھے، بلکہ نماز، زکوٰۃ اور دوسری نیکیوں کا حکم بھی دیتے تھے، جیسا کہ حدیثِ ہرقل میں ہے کہ ہرقل نے ابوسفیان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پوچھا: ”وہ تمھیں کس بات کا حکم دیتے ہیں؟“ تو ابوسفیان نے بتایا: [ يَأْمُرُنَا بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ وَالصِّلَةِ وَالْعَفَافِ ]”وہ ہمیں نماز، زکوٰۃ، صلہ رحمی اور پاک دامنی کا حکم دیتے ہیں۔“[ بخاري، التفسیر، باب: «قل یا أھل الکتاب تعالوا…» : ۴۵۵۳ ]