(آیت 36)سُبْحٰنَ الَّذِيْ خَلَقَ الْاَزْوَاجَ كُلَّهَا …: یعنی ان لوگوں نے اللہ کے جو شریک بنا رکھے ہیں وہ ان سے پاک ہے۔ پھر اپنی کچھ صفات بیان فرمائیں جو صرف اس کے ساتھ خاص ہیں اور جن کا تقاضا ہے کہ اسے ہر عیب، ہر نقص اور ہر شرک سے پاک سمجھا جائے۔ ” الْاَزْوَاجَ “ کے کئی معنی ہیں، مثلاً اس کا اطلاق نر و مادہ پر بھی ہوتا ہے۔ مرد عورت کے لیے زوج ہے اور عورت مرد کے لیے اور ان دونوں میں اللہ تعالیٰ نے فطرتی طور پر ایک دوسرے کے لیے کشش رکھ دی ہے، پھر اس زوج کے ایک دوسرے سے ملنے سے آگے مزید تخلیق کا سلسلہ چلتا ہے اور یہ سلسلہ صرف حیوانات ہی میں نہیں، نباتات میں بھی پایا جاتا ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «وَ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ» [ الذاریات: ۴۹ ]”اور ہر چیز سے ہم نے دو قسمیں بنائیں، تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔“ نباتات میں سے کچھ درخت تو ایسے ہیں جن کا عام انسانوں کو بھی علم ہوتا ہے، مثلاً کھجور اور انار کے درخت نر بھی ہوتے ہیں اور مادہ بھی، جب پھل لگنے کا موسم ہوتا ہے تو ہوائیں نر درختوں کا بیج اٹھا کر مادہ درختوں پر پھینک دیتی ہیں تو مزید پیدائش عمل میں آتی ہے اور نباتات کی ہر قسم میں نر و مادہ کا سلسلہ موجود ہے، خواہ ابھی تک انسان کو اس کا علم ہوا ہو یا نہ ہو۔ پھر یہ سلسلہ جمادات حتیٰ کہ مادہ کے ایک ذرہ کے اندر بھی پایا جاتا ہے۔ اس میں بھی مثبت اور منفی قوتیں موجود ہیں، جو آپس میں ایک دوسرے کے لیے کشش رکھتی ہیں۔ دوسرے زوج کا لفظ آپس میں مماثلت رکھنے والی چیزوں کے لیے بھی آتا ہے، مثلاً ایک جوتا دوسرے جوتے کے لیے زوج ہوتا ہے اور اس معنی میں بھی یہ لفظ قرآن میں موجود ہے، جیسے فرمایا: «وَ اٰخَرُ مِنْ شَكْلِهٖۤ اَزْوَاجٌ» [ صٓ: ۵۸ ]”اور دوسری اس کی ہم شکل کئی (ازواج) قسمیں۔“ اور ازواج کا ایک معنی ایک دوسرے کے مخالف اشیاء، جیسے دن رات کا زوج ہے اور رات دن کا، یا سایہ دھوپ کا اور دھوپ سائے کا، یا روشنی تاریکی کی زوج اور تاریکی روشنی کی، گویا یہ زوج کا سلسلہ اتنا وسیع ہے جو نباتات اور حیوانات کے علاوہ بھی تمام اشیاء میں پایا جاتا ہے، خواہ تمھیں اس کا علم ہو یا نہ ہو سکے۔ فرمایا: «وَ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ»[ الذاریات: ۴۹ ]”اور ہم نے ہر چیز سے دو قسمیں بنائیں، تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔“
اس آیت کی ابتدا میں اللہ تعالیٰ نے ” سُبْحٰنَ الَّذِيْ “ کا لفظ استعمال فرمایا، جس کا مطلب یہ ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ایسی ہے جو ہر قسم کے زوج سے پاک ہے، نہ اس کا کوئی مقابل ہے اور نہ مماثل، کیونکہ مقابلہ یا مماثلت ان چیزوں میں ہو سکتی ہے جو کسی درجہ میں فی الجملہ اشتراک رکھتی ہوں، مگر خالق اور مخلوق کا کسی حقیقت میں اشتراک نہیں ہوتا، اور اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ دنیا میں شرک کی جتنی بھی اقسام پائی جاتی ہیں ان میں سے ہر قسم میں اللہ تعالیٰ کی ذات میں کسی نہ کسی کمی، کمزوری، عیب یا نقص کا الزام ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ نے ” سُبْحٰنَ “ کا لفظ کہہ کر مشرکوں کے ہر قسم کے شرکیہ عقیدے کی تردید فرما دی۔ (کیلانی)