(آیت 34)وَ جَعَلْنَا فِيْهَا جَنّٰتٍ مِّنْ نَّخِيْلٍ …: ” نَخِيْلٍ “”نَخْلٌ“ کی جمع ہے، جیسے ”عَبْدٌ“ کی جمع ”عَبِيْدٌ“ ہے۔ ” اَعْنَابٍ “”عِنَبٌ“ کی جمع ہے اور ” الْعُيُوْنِ “”عَيْنٌ“ کی جمع ہے، مراد کنویں اور چشمے ہیں جن سے زمین سیراب کی جاتی ہے۔ یعنی مُردہ زمین کو زندہ کر کے ہم اس سے ان کی خوراک کے لیے صرف غلہ ہی نہیں اگاتے بلکہ ان کے کام و دہن کی لذت کے لیے مختلف اقسام کے پھل بھی کثرت سے پیدا کرتے ہیں۔ یہاں صرف دو پھلوں کا ذکر اس لیے کیا ہے کہ یہ کثیر المنافع بھی ہیں اور عربوں کو مرغوب بھی، نیز ان کی پیداوار بھی عرب میں زیادہ ہے، پھر غلے کا ذکر پہلے کیا، کیوں کہ اس کی پیداوار بھی زیادہ ہے اور خوراک کی حیثیت سے اس کی اہمیت بھی مسلّمہ ہے۔ جب تک انسان روٹی یا چاول وغیرہ خوراک سے اپنا پیٹ نہیں بھرتا، محض پھل فروٹ سے اس کی غذائی ضرورت پوری نہیں ہوتی۔ (احسن البیان)