(آیت 31)اَلَمْ يَرَوْا كَمْ اَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ …: ” اَلَمْ يَرَوْا “ سے مراد ”أَلَمْ يَعْلَمُوْا“ ہے، یعنی سابقہ اقوام کے انجام کی طرف نہ دیکھتے ہیں نہ اس میں غوروفکر کرتے ہیں۔ وہ قومیں بھی اپنے رسولوں کا مذاق اڑاتی رہیں اور اس کی پاداش میں انھیں ہلاک کر دیا جاتا تھا اور ان کا نام و نشان تک ایسا مٹا کہ ان میں سے کوئی بھی بچ کر ان کے پاس واپس نہیں لوٹا، پھر بھی ان کافروں کا یہی دستور رہا کہ جب کوئی نیا رسول آتا تو اس سے اسی طرح تمسخر اور استہزا شروع کر دیتے جو پہلے کفار کی عادت تھی اور کچھ سبق حاصل نہیں کرتے تھے اور آج کفارِ مکہ کا بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ (کیلانی)” لَا يَرْجِعُوْنَ “(وہ پلٹ کر نہیں آتے) کے لفظ میں ان لوگوں کا رد ہے جو بعض شخصیتوں کے موت کے بعد دوبارہ زندہ ہو کر دنیا میں آنے کے قائل ہیں اور ان ہندؤوں کا بھی جو کہتے ہیں کہ تمام مرنے والے دوبارہ دنیا میں کسی دوسری شکل میں آتے ہیں۔ اگر پہلی زندگی میں انھوں نے اچھے کام کیے ہوں تو پہلے سے اچھی صورت میں اور اگر برے کام کیے ہوں تو پہلے سے بری صورت میں اور اس عقیدے کو تناسخ یا او اگون کہتے ہیں۔