(آیت 2)وَ الْقُرْاٰنِ الْحَكِيْمِ: قسم سے مقصود اس بات کا یقین دلانا ہوتا ہے جس کے لیے قسم اٹھائی جائے اور قسم اس بات کی دلیل ہوتی ہے جو اس قسم کے بعد اس کے جواب کے طور پر آ رہی ہوتی ہے، پھر بعض اوقات جس کی قسم اٹھائی جائے اس کی عظمت ہی کو جواب قسم کی شہادت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، مثلاً اللہ کی قسم، اور بعض اوقات قسم کا مفہوم جواب قسم کی دلیل ہوتا ہے اور اس کے سچے ہونے کی شہادت دے رہا ہوتا ہے۔ ” الْحَكِيْمِ “ کا ایک معنی یہ ہے کہ یہ قرآن دانائی اور حکمت سے بھرپور ہے، اس کی کوئی بات نہ خطا ہے نہ عقل کے خلاف اور نہ کم تر درجہ کی، بلکہ ہر بات ہی کمال عقل و دانش پر مبنی ہے اور ایک معنی یہ ہے کہ یہ قرآن انتہائی محکم اور مضبوط ہے، اس کی آیات میں کوئی باہمی اختلاف نہیں۔
یہاں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے قرآن حکیم کی قسم کھا کر تین باتیں فرمائیں، پہلی یہ کہ یقینا تو رسولوں میں سے ہے، جنھیں ہماری طرف سے بھیجا گیا ہے، دوسری یہ کہ یقینا تو سیدھے راستے پر ہے اور تیسری یہ کہ یہ عزیز و رحیم کا نازل کردہ ہے۔ قسم اور جواب قسم میں مناسبت بالکل واضح ہے کہ آپ کی رسالت اور دوسری دونوں باتوں کے لیے اور کوئی دلیل نہ بھی ہو تو یہ قرآن ہی ان کی دلیل کے لیے کافی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ حکمت سے بھرپور اور ہر لحاظ سے محکم یہ قرآن اس بات کا شاہد ہے کہ یقینا آپ اللہ کے رسول ہیں، بالکل سیدھے راستے پر ہیں اور یہ قرآن اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کیا ہوا ہے، جو عزیز بھی ہے اور رحیم بھی۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُمّی تھے، نہ لکھنا جانتے تھے نہ پڑھنا، نہ آپ نے کسی کی شاگردی اختیار کی تھی، نہ آپ نے نبوت سے پہلے کبھی کوئی ایسا یا اس سے ملتا جلتا کلام پیش کیا، جس سے شبہ ہو کہ کلام کا یہ ملکہ ترقی کرتا کرتا اس درجے تک پہنچ گیا۔ یہ سب باتیں کفارِ مکہ اچھی طرح جانتے تھے، کیونکہ وہ ذاتی طور پر آپ کو چالیس برس سے جانتے تھے، پھر چالیس برس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر یک لخت ایسے کلام کا جاری ہو جانا، جس نے عرب کے تمام فصیح و بلیغ لوگوں کو مقابلے سے عاجز کر دیا اور گونگا بنا دیا اور بار بار کے چیلنج کے باوجود وہ ایسا کلام پیش کرنے سے عاجز آ گئے۔ اس سے یہ تین باتیں ثابت ہو رہی ہیں، ایک یہ کہ یہ عظیم الشّان حکیمانہ کلام آپ کا کلام نہیں بلکہ کسی اور کا کلام ہے جس نے آپ کو بھیجا ہے، دوسری یہ کہ وہ بھیجنے والا کوئی مخلوق نہیں بلکہ خود خالق کائنات ہے، جو عزیز و رحیم ہے، کیونکہ اگر یہ کسی اور کا کلام ہوتا تو وہ اس جیسا مزید بھی بنا کر پیش کر دیتا، جب کہ پوری کائنات مل کر بھی اس جیسی ایک سورت پیش کرنے سے عاجز ہے اور تیسری یہ کہ جب آپ اللہ کی طرف سے بھیجے ہوئے ہیں تو یقینا آپ جس راہ پر چل رہے ہیں وہ بالکل سیدھا راستہ ہے۔ اس میں قرآن کی عظمت و رفعت کا اظہار بھی ہے کہ اس کی قسم کھائی جا رہی ہے۔