(آیت 40) ➊ قُلْ اَرَءَيْتُمْ شُرَكَآءَكُمُ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ …: یعنی اللہ تعالیٰ نے تمھیں زمین کی خلافت بخشی، تو تم نے اس کی عبادت میں کچھ اوروں کو شریک بنا لیا اور انھیں پکارنا اور ان سے مانگنا شروع کر دیا، تو یہ بتاؤ کہ تمھارے پاس اس کی کیا دلیل ہے؟ کیا تمھارے بنائے ہوئے ان شریکوں نے، جنھیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو، زمین یا زمین کی کوئی چیز پیدا کی ہے؟ اگر کی ہے تو مجھے بھی دکھاؤ وہ کون سی چیز ہے؟ (دیکھیے حج: ۷۳۔ رعد: ۱۶) یا آسمانوں میں ان کا کوئی حصہ ہے تو اس کی نشان دہی کرو، یا ہم نے انھیں کوئی تحریر دی ہے، جو اس بات کی دلیل ہو کہ فلاں فلاں کو ہم نے بیماروں کو تندرست کرنے یا بے روزگاروں کو روزگار عطا کرنے یا حاجت مندوں کو ان کی حاجتیں پوری کرنے کے اختیارات دیے ہیں، اس لیے تمھیں یہ سب کچھ ان سے مانگنا چاہیے اور ان کا احسان مند ہونا چاہیے، اگر ایسی کوئی تحریر ہے تو لاؤ پیش کرو اور اگر نہیں اور یقینا نہیں تو خود ہی سوچو کہ آخر تم اپنی جانوں پر اتنا بڑا ظلم کیوں کر رہے ہو۔ یہی بات اللہ تعالیٰ نے سورۂ احقاف (۴) میں بھی بیان فرمائی ہے۔
➋ بَلْ اِنْ يَّعِدُ الظّٰلِمُوْنَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا اِلَّا غُرُوْرًا: یعنی بات یہ نہیں کہ ان شریکوں میں سے کسی کے پاس کوئی اختیار ہے، بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ شرک کا کاروبار کرنے والے یہ تمام ظالم، یہ جھوٹے پیشوا اور پیر، یہ پنڈت، پروہت، یہ کاہن اور عراف، یہ مجاور اور ان کے ایجنٹ ایک دوسرے کو محض جھوٹے وعدے دلا رہے ہیں کہ فلاں آستانے پر جاؤ گے تو اولاد ملے گی، فلاں بزرگوں سے مدد مانگو گے تو سنگ دل محبوب موم ہو جائے گا، فلاں درگاہ سے ہر مراد پوری ہوتی ہے۔ غرض یہ سارا کاروبار دھوکے پر اور جھوٹے وعدوں پر چل رہا ہے، جیسا کہ فرمایا: «يَعِدُهُمْ وَ يُمَنِّيْهِمْ وَ مَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطٰنُ اِلَّا غُرُوْرًا»[النساء: ۱۲۰ ]”وہ انھیں وعدے دیتا ہے اور انھیں آرزوئیں دلاتا ہے اور شیطان انھیں دھوکے کے سوا کچھ وعدہ نہیں دیتا۔“ اور قیامت کے دن شیطان صاف کہہ دے گا: «اِنَّ اللّٰهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَ وَعَدْتُّكُمْ فَاَخْلَفْتُكُمْ۠» [ إبراہیم: ۲۲ ]”بے شک اللہ نے تم سے وعدہ کیا، سچا وعدہ اور میں نے تم سے وعدہ کیا تو میں نے تم سے خلاف ورزی کی۔“