(آیت 37) ➊ وَ هُمْ يَصْطَرِخُوْنَ فِيْهَا …: ” يَصْطَرِخُوْنَ “”صَرَخَ يَصْرُخُ صُرَاخًا“(ن)(سخت چیخنا) سے باب افتعال ہے، جس میں مزید مبالغہ ہے، اصل میں ”يَصْتَرِخُوْنَ“ تھا، ”صاد“ کی مناسبت سے ”تاء“ کو ”طاء“ سے بدل دیا، یعنی بہت چیخیں چلائیں گے۔ جہنمیوں کی تمنا کہ انھیں ایک دفعہ جہنم سے نکال کر دنیا میں بھیج دیا جائے اور وہ پہلے کے برعکس نیک عمل کریں گے، قرآن مجید میں کئی جگہ ذکر ہوئی ہے، مگر ان کی یہ تمنا پوری نہیں کی جائے گی۔ دیکھیے سورۂ اعراف (۵۳)، سجدہ (۱۲)، مؤمن (۱۱) اور سورۂ شوریٰ (۴۴) ایک مقام پر فرمایا کہ اگر انھیں واپس بھیج بھی دیا جائے تو دوبارہ وہی کچھ کریں گے جو پہلے کرتے رہے ہیں۔ دیکھیے سورۂ انعام (۲۸)۔
➋ اَوَ لَمْ نُعَمِّرْكُمْ مَّا يَتَذَكَّرُ فِيْهِ مَنْ تَذَكَّرَ …: اس آیت کی تفسیر میں امام بخاری رحمہ اللہ نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث بیان فرمائی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ أَعْذَرَ اللّٰهُ إِلَی امْرِئٍ أَخَّرَ أَجَلَهُ حَتّٰی بَلَّغَهُ سِتِّيْنَ سَنَةً ][بخاري، الرقاق، باب من بلغ ستین سنۃ…: ۶۴۱۹ ]”اللہ تعالیٰ نے اس آدمی کا عذر ختم کر دیا جس کی موت میں اتنی دیر کی کہ وہ ساٹھ برس ہی کو پہنچ گیا۔“ مگر اس حدیث سے مراد یہ نہیں کہ اس سے کم عمر والے کو یہ بات نہیں کہی جائے گی، بلکہ مراد یہ ہے کہ سب سے زیادہ ڈانٹ اس عمر کے لوگوں کو پڑے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ بات ہر اس شخص کو کہی جائے گی جو بلوغت کی عمر کو پہنچا، اللہ تعالیٰ نے اسے اچھے برے کی تمیز عطا فرمائی، اگر وہ چاہتا تو ایمان لا سکتا تھا، مگر وہ جان بوجھ کر کفر پر اڑا رہا۔ کیونکہ اس بات پر سب متفق ہیں کہ ساٹھ سال سے کم عمر والے کفار کو اس عذر کی وجہ سے جہنم سے چھٹکارا نہیں ملے گا کہ انھیں ساٹھ برس کی عمر نہیں ملی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں کتنے ہی کافر جہنم واصل ہوئے، جن کی عمریں ساٹھ سال سے کم تھیں۔
➌ وَ جَآءَكُمُ النَّذِيْرُ: اس سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعد ہر وہ شخص ہے جس کے ذریعے سے کسی کو حق کا پیغام پہنچے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا قاعدہ ہے: «وَ مَا كُنَّا مُعَذِّبِيْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا» [ بني إسرائیل: ۱۵ ]”اور ہم کبھی عذاب دینے والے نہیں یہاں تک کہ کوئی پیغام پہنچانے والا بھیجیں۔“” النَّذِيْرُ “ کا لفظ عام ہے، جس میں رسول اور اس کے نائب کے علاوہ وقتاً فوقتاً پیش آنے والے حوادث بھی شامل ہیں، جن سے بندہ عبرت حاصل کر سکتا ہے، جیسا کہ فرمایا: «اَوَ لَا يَرَوْنَ اَنَّهُمْ يُفْتَنُوْنَ فِيْ كُلِّ عَامٍ مَّرَّةً اَوْ مَرَّتَيْنِ ثُمَّ لَا يَتُوْبُوْنَ وَ لَا هُمْ يَذَّكَّرُوْنَ» [ التوبۃ: ۱۲۶ ]”اور کیا وہ نہیں دیکھتے کہ وہ ہر سال ایک یا دو مرتبہ آزمائش میں ڈالے جاتے ہیں، پھر بھی وہ نہ توبہ کرتے ہیں اور نہ ہی وہ نصیحت پکڑتے ہیں۔“ بعض سلف نے سفید بالوں کو بھی ” النَّذِيْرُ “ میں شامل کیا ہے، کیونکہ وہ زندگی کی مہلت ختم ہونے سے خبردار کرتے ہیں۔
➍ فَذُوْقُوْا فَمَا لِلظّٰلِمِيْنَ مِنْ نَّصِيْرٍ: یہاں ظالموں سے مراد مشرک ہیں، کیونکہ جہنم میں ہمیشہ وہی رہیں گے۔