(آیت 10) ➊ مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْعِزَّةَ فَلِلّٰهِ الْعِزَّةُ جَمِيْعًا: عزت کا معنی غلبہ ہے، جیسا کہ فرمایا: «وَ عَزَّنِيْ فِي الْخِطَابِ»[ صٓ: ۲۳ ]”اور اس نے بات کرنے میں مجھ پر بہت سختی کی۔“ اس آیت کی تفسیر دو طرح سے ہو سکتی ہے، پہلی جو سب سے واضح ہے، یہ ہے کہ جو شخص چاہتا ہے کہ اسے عزت و غلبہ حاصل ہو تو اسے جان لینا چاہیے کہ عزت سب کی سب اللہ کے ہاتھ میں ہے، جیسا کہ فرمایا: «قُلِ اللّٰهُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَآءُ وَ تَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَآءُ وَ تُعِزُّ مَنْ تَشَآءُ وَ تُذِلُّ مَنْ تَشَآءُ بِيَدِكَ الْخَيْرُ اِنَّكَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ» [ آل عمران: ۲۶ ]”کہہ دے اے اللہ! بادشاہی کے مالک! تو جسے چاہے بادشاہی دیتا ہے اور جس سے چاہے بادشاہی چھین لیتا ہے اور جسے چاہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہے ذلیل کر دیتا ہے، تیرے ہی ہاتھ میں ہر بھلائی ہے، بے شک تو ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔“ اس میں ان کفار و مشرکین اور بعض نام نہاد مسلمانوں کا رد ہے جو غیر اللہ کی عبادت کرتے ہیں، تاکہ وہ ان کے لیے عزت اور غلبے کا باعث بنیں، فرمایا: «وَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اٰلِهَةً لِّيَكُوْنُوْا لَهُمْ عِزًّا (81) كَلَّا سَيَكْفُرُوْنَ بِعِبَادَتِهِمْ وَ يَكُوْنُوْنَ عَلَيْهِمْ ضِدًّا» [ مریم: ۸۱، ۸۲ ]”اور انھوں نے اللہ کے سوا اور معبود بنا لیے، تاکہ وہ ان کے لیے باعث عزت ہوں۔ ہرگز ایسا نہ ہوگا، عنقریب وہ ان کی عبادت کا انکار کر دیں گے اور ان کے خلاف مد مقابل ہوں گے۔“ اور ان ضعیف الایمان اور منافق قسم کے لوگوں کا بھی رد ہے جو کفار سے دوستی کرتے ہیں، تاکہ دنیا میں باعزت اور غالب ہو کر زندگی بسر کر سکیں، جیسا کہ فرمایا: «بَشِّرِ الْمُنٰفِقِيْنَ بِاَنَّ لَهُمْ عَذَابًا اَلِيْمَا (138) ا۟لَّذِيْنَ يَتَّخِذُوْنَ الْكٰفِرِيْنَ اَوْلِيَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِيْنَ اَيَبْتَغُوْنَ عِنْدَهُمُ الْعِزَّةَ فَاِنَّ الْعِزَّةَ لِلّٰهِ جَمِيْعًا» [ النساء: ۱۳۸، ۱۳۹ ]”منافقوں کو خوش خبری دے دے کہ ان کے لیے ایک درد ناک عذاب ہے۔ وہ جو کافروں کو مومنوں کے سوا دوست بناتے ہیں، کیا وہ ان کے پاس عزت ڈھونڈتے ہیں؟ تو بے شک عزت سب اللہ کے لیے ہے۔“ یعنی جو شخص جاننا چاہتا ہے کہ عزت و غلبے کا مالک کون ہے، وہ جان لے کہ عزت و غلبہ سب اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ اب جو بھی عزت و غلبہ چاہتا ہو وہ اس سے طلب کرے، کیونکہ جس کسی کو بھی عزت ملی ہے یا ملے گی اسی سے ملی ہے اور اسی سے ملے گی۔
دوسری تفسیر یہ ہے کہ جو شخص اسلام کا مقابلہ کر کے اس پر غالب ہونا چاہتا ہے وہ جان لے کہ عزت و غلبہ تو سب اللہ تعالیٰ کے لیے ہے، جو اس پر غالب آنے کی کوشش کرے گا وہ بری طرح مغلوب ہو گا۔
➋ اِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ: ” الْكَلِمُ “”كَلِمَةٌ“ کی جمع نہیں، ورنہ ” يَصْعَدُ “ کے بجائے ”تَصْعَدُ“ کا لفظ آتا اور اس کی صفت مؤنث آتی، بلکہ یہ اسم جنس ہے جو واحد و جمع سب پر بولا جاتا ہے۔ جب اس کا ایک فرد بیان کرنا مقصود ہو تو اس کے ساتھ ”تاء“ لگا دیتے ہیں، جیسے ”تَمْرٌ“ کھجور، ایک ہو یا بہت سی ہوں، لیکن اگر ایک کھجور کہنا ہو تو ”تَمْرَةٌ“ کہا جائے گا۔
➌ اس میں ان چیزوں کا بیان ہے جن کے ذریعے سے عزت حاصل ہوتی ہے اور وہ ہیں ایمان اور عمل صالح۔
➍ ” الْكَلِمُ الطَّيِّبُ “(پاکیزہ بات) سے مراد بعض نے کلمہ توحید ”لاالٰہ الا اللہ “ لیا ہے، مگر لفظ عام ہے، اس میں کلمہ اسلام کے ساتھ ذکر، دعا، تلاوتِ قرآن، تعلیم، تربیت اور دعوت سبھی شامل ہیں، یعنی ہر پاکیزہ بات اسی کی طرف چڑھتی ہے اور وہی اسے قبول کرتا اور بلندی عطا کرتا ہے۔ ناپاک اور خبیث باتیں عروج حاصل کرہی نہیں سکتیں۔
➎ وَ الْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهٗ: اس کی تفسیر میں بھی تین احتمال ہیں، پہلا یہ کہ ”هٗ“ ضمیر سے مراد الکلم الطیب ہے، یعنی عمل صالح الکلم الطیب (پاکیزہ بات) کو بلند کرتا ہے۔ کوئی کلمہ اپنی جگہ کتنا پاکیزہ ہو قبول اسی وقت ہوتا ہے جب اس کے ساتھ عمل بھی نیک ہو، یعنی عمل کا نیک ہونا الکلم الطیب کی قبولیت کے لیے شرط ہے۔ نیک عمل وہ ہے جو خالص اللہ کے لیے ہو اور سنت کے مطابق ہو۔ دیکھیے سورۂ کہف کی آخری آیت۔ دوسرا یہ کہ ”يَرْفَعُ“ کا فاعل” الْكَلِمُ الطَّيِّبُ “ کی ضمیر ہو اور ”هٗ“ کی ضمیر سے مراد عمل صالح ہو، یعنی پاکیزہ بات عمل صالح کو بلند کرتی ہے۔ یہ اس صورت میں ہے کہ الکلم الطیب سے مراد ”لاالٰہ الا اللہ“ ہو، یعنی ایمان اور کلمہ توحید کے بغیر کوئی عمل قبول نہیں، جیسا کہ فرمایا: «مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهٗ حَيٰوةً طَيِّبَةً» [ النحل: ۹۷ ]”جو بھی نیک عمل کرے، مرد ہو یا عورت اور وہ مومن ہو تو یقینا ہم اسے ضرور زندگی بخشیں گے، پاکیزہ زندگی۔“ اور تیسرا احتمال یہ ہے کہ”يَرْفَعُ“ میں فاعل کی ضمیر سے مراد اللہ تعالیٰ ہے۔ مطلب یہ ہو گا کہ جو بھی عمل صالح ہے اللہ اس کو بلند کرتا ہے، یعنی اسے قبول کرتا اور اس کی جزا عطا کرتا ہے۔ یہ تینوں معنی یہاں مراد ہو سکتے ہیں اور تینوں درست ہیں۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ نے ارادۂ عزت، صعودِ کلم طیب اور رفع عمل صالح کی باہمی مناسبت بیان کرتے ہوئے لکھا ہے: ”یعنی عزت اللہ کے ہاتھ میں ہے، تمھارے ذکر اور بھلے کام چڑھتے جاتے ہیں جب اپنی حد کو پہنچیں گے تب بدی پر غلبہ (حاصل) کریں گے، کفر دفع ہوگا (اور) اسلام کو عزت (نصیب) ہو گی۔“
➏ وَ الَّذِيْنَ يَمْكُرُوْنَ السَّيِّاٰتِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيْدٌ: مکر کا معنی ہے خفیہ تدبیر، وہ اچھی ہو یا بری، اکثر مذموم تدبیر کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ” يَمْكُرُوْنَ السَّيِّاٰتِ “ سے مراد وہ لوگ ہیں جو الکلم الطیب کے بجائے باطل اور خبیث باتیں لے کر اٹھتے ہیں اور مکاریوں اور چالاکیوں سے انھیں غالب کر نے کی کوشش کرتے ہیں، ان کے لیے بہت سخت عذاب ہے۔ اس کے اولین مصداق وہ لوگ ہیں جنھوں نے دار الندوہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قید یا قتل یا جلا وطن کرنے کا منصوبہ بنایا۔ دیکھیے سورۂ انفال (۳۰) ان کے علاوہ وہ سب لوگ اس میں داخل ہیں جو اسلام کے خلاف سازشیں کر کے اس پر غلبے کی کوشش کرتے ہیں۔
➐ وَ مَكْرُ اُولٰٓىِٕكَ هُوَ يَبُوْرُ: یعنی انھی کی تدبیر ناکام و نامراد ہو گی، اللہ کی تدبیر کبھی ناکام نہیں ہو گی، جیسا کہ فرمایا: «وَ مَكَرُوْا وَ مَكَرَ اللّٰهُ وَ اللّٰهُ خَيْرُ الْمٰكِرِيْنَ» [ آل عمران: ۵۴ ]”اور انھوں نے خفیہ تدبیر کی اور اللہ نے بھی خفیہ تدبیر کی اور اللہ سب خفیہ تدبیر کرنے والوں سے بہتر ہے۔“ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کی سازش کرنے والے اس میں کامیاب نہ ہوئے، بلکہ بدر میں ہلاک ہوئے، پھر باقی فتح مکہ میں مغلوب ہوئے۔ مزید دیکھیے سورۂ فاطر (۴۳)، طور (۴۲)، رعد (۴۲) اور سورۂ انعام (۱۲۴، ۱۲۵)۔