(آیت 5) ➊ يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ: وعدے سے مراد آخرت کا وعدہ ہے، جس کا پچھلی آیت کے آخری جملے میں ذکر ہے کہ تمام معاملات اللہ کے حضور پیش ہونے والے ہیں۔
➋ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيٰوةُ الدُّنْيَا: یعنی اللہ کا وعدہ یقینا سچا ہے کہ تمھیں اس کے حضور پیش ہونا ہے تو کہیں دنیا کی زندگی اپنی لذتوں اور دل فریبیوں کے ساتھ تمھیں اس دھوکے میں نہ ڈال دے کہ بس یہی زندگی ہے، کیونکہ اس دنیا نے بہت سے لوگوں کو اس دھوکے میں رکھ کر برباد کر دیا۔ دیکھیے سورۂ انعام (۲۹)، مؤمنون (۳۷) اور سورۂ جاثیہ (۲۴)” الدُّنْيَا “”اَلْأَدْنٰي“ کی مؤنث ہے، قریب کی زندگی جو آخرت کے مقابلے میں قریب ہے، یا کمینی اور حقیر زندگی، جیسا کہ ”دَنِئٌ“ بمعنی حقیر ہے۔ مقصود دنیا کی زندگی کی حقارت کی طرف توجہ دلا کر اس سے ہوشیار ہونے کی تاکید ہے۔
➌ وَ لَا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللّٰهِ الْغَرُوْرُ:” الْغَرُوْرُ “ غین کے ضمّہ کے ساتھ ”غَرَّ يَغُرُّ“(ن) کا مصدر ہے، دھوکا دینا اور غین کے فتحہ کے ساتھ صفت مشبہ ہے، جس میں مبالغے کا معنی بھی ہے، یعنی بہت دھوکا دینے والا۔ الف لام اس میں عہد کا ہے، وہ دھوکا دینے والا جسے تم بھی جانتے ہو، یعنی شیطان، جس کی صراحت اگلی آیت میں آرہی ہے، جیسا کہ ”شُكُوْرٌ“(شین کے ضمّہ کے ساتھ) شکر کرنا اور ”شَكُوْرٌ“(شین کے فتحہ کے ساتھ) بہت شکر کرنے والا۔
➍ شیطان اللہ تعالیٰ کے بارے میں کئی طرح سے فریب دیتا ہے، کسی کو یہ فریب دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا سرے سے وجود ہی نہیں، یہ کائنات خود بخود چل رہی ہے۔ کسی کو اس غلط فہمی میں مبتلا کرتا ہے کہ اللہ کے سوا اور بھی معبود ہیں جو نفع و نقصان کا اختیار رکھتے ہیں۔ کسی کو یہ حکم دیتا ہے کہ گناہ کر لو پھر توبہ کر لینا، کسی کو اللہ کی رحمت کے نام پر دھوکا دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بڑا غفور و رحیم ہے، جتنے چاہو گناہ کر لو، وہ بخش دے گا اور اکثر کو ”تسویف“ کے ساتھ دھوکا دیتا ہے، تسویف کا معنی ہے ”سَوْفَ أَفْعَلُ“ کہ میں نیک عمل کر ہی لوں گا، ایسی بھی کیا جلدی ہے، ابھی بہت وقت باقی ہے، وہ آدمی کو اسی دھوکے میں رکھتا ہے، حتیٰ کہ عمل کی مہلت ختم ہو جاتی ہے۔