(آیت 4) ➊ وَ اِنْ يُّكَذِّبُوْكَ فَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِكَ: توحید کے بعد رسالت کا ذکر ہے۔ ” وَ اِنْ يُّكَذِّبُوْكَ “ میں واؤ عطف دلیل ہے کہ اس سے پہلے ایک جملہ محذوف ہے، جس کا مفہوم یہ ہے: ”فَإِنْ يُصَدِّقُوْكَ فَقَدْ فَازُوْا لِأَنَّكَ رَسُوْلُ اللّٰهِ حَقًّا“ یعنی اگر یہ آپ کی تصدیق کریں تو یہ کامیاب ہیں، کیونکہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں۔
➋ ” وَ اِنْ يُّكَذِّبُوْكَ “ شرط ہے، اس کی جزا محذوف ہے جو خود بخود سمجھ میں آ رہی ہے: ”وَإِنْ يُكَذِّبُوْكَ فَتَأَسَّ بِالرُّسُلِ مِنْ قَبْلِكَ فَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِنْ قَبْلِكَ“ یعنی اگر یہ آپ کو جھٹلا دیں تو آپ اپنے سے پہلے رسولوں کے حالات سے تسلی حاصل کریں، کیونکہ آپ سے پہلے کئی رسول جھٹلائے گئے اور انھوں نے قوم کے جھٹلانے پر صبر کیا۔ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تسلی ہے اور جھٹلانے والوں کے لیے وعید کہ رسولوں کو پہلے جھٹلانے والے لوگوں کی طرح یہ لوگ بھی برباد ہوں گے۔ قرآن مجید میں کئی مقامات پر پہلے رسولوں کا حوالہ دے کر آپ کو تسلی دی گئی، جیسا کہ فرمایا: «وَ لَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِكَ فَصَبَرُوْا عَلٰى مَا كُذِّبُوْا وَ اُوْذُوْا حَتّٰۤى اَتٰىهُمْ نَصْرُنَا وَ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِ اللّٰهِ وَ لَقَدْ جَآءَكَ مِنْ نَّبَاِي الْمُرْسَلِيْنَ» [الأنعام: ۳۴ ]”اور بلاشبہ یقینا تجھ سے پہلے کئی رسول جھٹلائے گئے تو انھوں نے اس پر صبر کیا کہ وہ جھٹلائے گئے اور ایذا دیے گئے، یہاں تک کہ ان کے پاس ہماری مدد آگئی اور کوئی اللہ کی باتوں کو بدلنے والا نہیں اور بلاشبہ یقینا تیرے پاس ان رسولوں کی کچھ خبریں آئی ہیں۔“ اور دیکھیے سورۂ حٰم السجدہ (۴۳)۔
➌ وَ اِلَى اللّٰهِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ: یعنی یہ لوگ آپ کو جھٹلا کر آخر کہاں جائیں گے، تمام معاملات آخر پیش تو ہمارے سامنے ہی ہوں گے اور ہم نے ہی ان کا فیصلہ کرنا ہے۔ توحید و رسالت کے ساتھ آخرت کا ذکر ہے۔