تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 1)اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ: فَطَرَ يَفْطِرُ فَطْرًا (ض، ن) نئے سرے سے پیدا کرنا، پھاڑنا۔ سورت کی ابتدا اس دعوے کے ساتھ ہوئی ہے کہ تمام خوبیوں اور سب تعریف کا حق دار اللہ وحدہ ہے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ کی تفسیر سورۂ فاتحہ کی ابتدا میں ملاحظہ فرمائیں۔ اس کے بعد پوری سورت میں اس بات کے دلائل بیان ہوئے ہیں کہ وہ اکیلا تمام خوبیوں کا مالک اور معبود برحق ہے۔ درمیان میں توحید کے ساتھ ساتھ نبوت، قیامت اور ان سے متعلق بعض باتوں کا ذکر بھی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے اکیلے معبود برحق ہونے کی پہلی دلیل یہ بیان فرمائی کہ وہ آسمان و زمین کو ابتداءً کسی نمونے کے بغیر عدم سے پھاڑ نکالنے والا ہے۔ آسمان و زمین سے مراد ساری کائنات ہے۔ جب پیدا کرنے والا وہ ہے تو عبادت کا حق دار کوئی دوسرا کیسے ہو سکتا ہے؟ یہی بات آگے صراحت کے ساتھ آیت (۳) میں آرہی ہے۔ پھر اس نے اپنی مخلوق کو پیدا فرما کر ایسے ہی نہیں چھوڑ دیا، بلکہ ان کے لیے دنیا کی ہر ضرورت مہیا فرمائی اور اس کی طرف ان کی راہ نمائی فرمائی، فرمایا: «‏‏‏‏رَبُّنَا الَّذِيْۤ اَعْطٰى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهٗ ثُمَّ هَدٰى» [ طٰہٰ: ۵۰ ] ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی شکل و صورت بخشی، پھر راستہ دکھایا۔ فطری ہدایت کے علاوہ انبیاء و رسل کو مبعوث فرمایا، اس کا ذکر آیت (۴) میں ہے۔ پھر ظاہر ہے کہ جب اس نے پہلے پہل نمونے کے بغیر یہ سب کچھ پیدا فرما لیا تو دوبارہ بنانا اس کے لیے کیا مشکل ہے، اس کا صراحت کے ساتھ ذکر آیت (۵) میں آرہا ہے۔

جَاعِلِ الْمَلٰٓىِٕكَةِ رُسُلًا: رُسُلًا رَسُوْلٌ (بروزن فَعُوْلٌ بمعنی مَفْعُوْلٌ) کی جمع ہے، جسے کوئی پیغام دے کر بھیجا جائے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت کے لیے جن انبیاء و رسل کا انتخاب فرمایا، ان کے پاس اپنا پیغام پہنچانے کے لیے اس نے فرشتوں کو اپنا رسول بنایا۔ (دیکھیے سورۂ شوریٰ: ۵۱) ان میں سب سے بڑی شان والے جبریل علیہ السلام ہیں۔ ان کا لقب اَلرُّوْحُ الْأَمِيْنُ ہے۔ بعض اوقات وہ دوسرے فرشتوں کو بھی پیغام پہنچانے کے لیے یا اپنے احکام کی تنفیذ کے لیے بھیجتا ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف میں کفار کی بدسلوکی اور زیادتی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: [ فَانْطَلَقْتُ وَ أَنَا مَهْمُوْمٌ عَلٰی وَجْهِيْ فَلَمْ أَسْتَفِقْ إِلَّا وَأَنَا بِقَرْنِ الثَّعَالِبِ فَرَفَعْتُ رَأْسِيْ فَإِذَا أَنَا بِسَحَابَةٍ قَدْ أَظَلَّتْنِيْ فَنَظَرْتُ فَإِذَا فِيْهَا جِبْرِيْلُ فَنَادَانِيْ فَقَالَ إِنَّ اللّٰهَ قَدْ سَمِعَ قَوْلَ قَوْمِكَ لَكَ وَمَا رَدُّوْا عَلَيْكَ وَ قَدْ بَعَثَ اللّٰهُ إِلَيْكَ مَلَكَ الْجِبَالِ لِتَأْمُرَهُ بِمَا شِئْتَ فِيْهِمْ فَنَادَانِيْ مَلَكُ الْجِبَالِ فَسَلَّمَ عَلَيَّ ثُمَّ قَالَ يَا مُحَمَّدُ! إِنَّ اللّٰهَ قَدْ سَمِعَ قَوْلَ قَوْمِكَ لَكَ، وَ أَنَا مَلَكُ الْجِبَالِ وَ قَدْ بَعَثَنِيْ رَبُّكَ إِلَيْكَ لِتَأْمُرَنِيْ بِأَمْرِكَ فَمَا شِئْتَ؟ إِنْ شِئْتَ أَنْ أُطْبِقَ عَلَيْهِمُ الْأَخْشَبَيْنِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَلْ أَرْجُوْ أَنْ يُّخْرِجَ اللّٰهُ مِنْ أَصْلاَبِهِمْ مَنْ يَّعْبُدُ اللّٰهَ وَحْدَهُ لَا يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا ] [ بخاري، بدء الخلق، باب إذا قال أحدکم آمین و الملائکۃ …: ۳۲۳۱۔ مسلم: ۱۷۹۵ ] تو میں غم کی حالت میں جدھر منہ تھا چل پڑا۔ مجھے افاقہ ہوا تو میں قرن الثعالب پر تھا، میں نے سر اٹھایا تو ایک بدلی نے مجھ پر سایہ کیا ہوا تھا۔ میں نے دیکھا تو اس میں جبریل علیہ السلام تھے۔ انھوں نے مجھے آواز دی اور کہا: اللہ تعالیٰ نے آپ کی قوم کی بات اور آپ کو ان کا جواب سن لیا اور اس نے آپ کی طرف پہاڑوں کے فرشتے کو بھیجا ہے، تا کہ آپ ان کے متعلق اسے جو چاہیں حکم دیں۔ پھر مجھے پہاڑوں کے فرشتے نے آواز دی اور مجھے سلام کہا، پھر کہا: اے محمد! اللہ عزوجل نے آپ کی قوم کی بات سن لی ہے، میں پہاڑوں کا فرشتہ ہوں اور آپ کے رب نے مجھے آپ کی طرف بھیجا ہے، تاکہ آپ مجھے جو حکم چاہیں کریں؟ اگر چاہیں کہ میں انھیں دو پہاڑوں کے درمیان پیس دوں تو میں ایسے کر دیتا ہوں۔ تو میں نے کہا: بلکہ میں امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی پشتوں سے وہ لوگ نکالے گا جو اللہ کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے۔

بعض اوقات فرشتوں کو انبیاء کے علاوہ بھی اپنے صالح بندوں کو بشارت دینے کے لیے یا ان کی راہ نمائی کے لیے خواب میں یا بیداری میں بھیج دیتا ہے، جیسا کہ اسماعیل علیہ السلام کی والدہ، موسیٰ علیہ السلام کی والدہ اور مریم علیھما السلام کا معاملہ ہوا اور جیسا کہ وہ میدانِ قتال میں مجاہدین کے دل مضبوط رکھنے کے لیے فرشتوں کو بھیجتا ہے۔ بعض اوقات وہ انھیں آزمائش کے لیے بھی بھیج دیتا ہے، جیسا کہ صحیح بخاری (۳۴۶۴) میں گنجے، برص والے اور اندھے کا قصہ مذکور ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ کی دلیل کے طور پر یہاں آسمان و زمین کی پیدائش کے بعد فرشتوں کا ذکر اس لیے فرمایا کہ وہ اس کے ہاں بہت معزز مقام رکھتے ہیں، اس کے باوجود اس کے بندے ہیں، جیسا کہ فرمایا: «‏‏‏‏بَلْ عِبَادٌ مُّكْرَمُوْنَ» [ الأنبیاء: ۲۶ ] بلکہ وہ بندے ہیں جنھیں عزت دی گئی ہے۔ ان کے ذمے اللہ تعالیٰ کے احکام پہنچانا ہے اور انھیں نافذ کرنا بھی، جیسا کہ فرمایا: «‏‏‏‏فَالْمُدَبِّرٰتِ اَمْرًا» ‏‏‏‏ [ النازعات: ۵ ] پھر جو کسی کام کی تدبیر کرنے والے ہیں! اس میں مشرکین کو اس بات کی طرف توجہ دلانا بھی مقصود ہے کہ جن فرشتوں کو تم نے معبود بنا رکھا ہے وہ اپنا اختیار کچھ نہیں رکھتے، ان کی حیثیت محض رسول (قاصد) کی ہے جس کی اپنی بات کچھ نہیں ہوتی، بلکہ وہ بھیجنے والے کا پیغام پہنچاتا ہے، یا اس پر عمل کرتا ہے۔

اُولِيْۤ اَجْنِحَةٍ مَّثْنٰى وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ: فرشتوں کی پیدائش میں اپنے کمال قدرت کے بیان کے لیے ان کے اَجْنِحَةٍ کا ذکر فرمایا، جو جَنَاحٌ (بفتح جیم) کی جمع ہے۔ یہ لفظ ہاتھ، بازو اور پہلو کے معنی میں بھی آتا ہے، مگر پرندوں کے ذکر کے ساتھ اس کا معنی پَر ہوتا ہے، جیسا کہ فرمایا: «‏‏‏‏وَ لَا طٰٓىِٕرٍ يَّطِيْرُ بِجَنَاحَيْهِ» ‏‏‏‏ [ الأنعام: ۳۸ ] اور نہ کوئی اڑنے والا، جو اپنے دو پروں سے اڑتا ہے۔ فرشتوں کی آسمانوں اور زمین میں آمدورفت کے لیے پَر ہی موزوں ہو سکتے ہیں، اب اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے، یا جس نے انھیں اصل صورت میں دیکھا ہے کہ ان اَجْنِحَةٍ کی کیا کیفیت ہے؟ آیا وہ صرف پرواز کے لیے ہیں، یا وہی بازوؤں کا کام بھی دیتے ہیں۔ آیت سے یہ ضرور ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے پَر کم از کم دو ضرور ہیں، زیادہ کی حد اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ تین تین، چار چار سے معلوم ہوا کہ وہ دو سے زیادہ پروں والے بھی ہیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ضروری نہیں فرشتوں کے پر جفت عدد میں ہوں بلکہ طاق بھی ہیں۔

يَزِيْدُ فِي الْخَلْقِ مَا يَشَآءُ: اس جملے کے کئی مطلب ہو سکتے ہیں اور سبھی بیک وقت مراد لیے جا سکتے ہیں اور جامع کلمات ایسے ہی ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ فرشتوں کو پیدا کرتے ہوئے جس کے پَر جتنے چاہتا ہے زیادہ بنا دیتا ہے، جس سے ان کی قوتِ پرواز میں بے حساب اضافہ ہو جاتا ہے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: [ أَنَّ مُحَمَّدًا صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ رَأَی جِبْرِيْلَ، لَهُ سِتُّمِائَةِ جَنَاحٍ ] [ بخاري، التفسیر، باب قولہ تعالٰی: «‏‏‏‏فأوحی إلی عبدہ ما أوحی» ‏‏‏‏: ۴۸۵۷ ] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل علیہ السلام کو (اصل صورت میں) دیکھا، ان کے چھ سو پَر تھے۔

دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ساری مخلوق میں سے جس میں چاہتا ہے اور جتنی چاہتا ہے زیادتی کر دیتا ہے، مثلاً طویل القامت یا قصیر القامت ہونے میں، حسن و جمال میں، عقل و دانش میں، جرأت و بہادری میں، سخاوت و بخل میں، بلندی و پستی میں، قوت و ضعف میں، غرض کمیت و کیفیت کی بے شمار صورتوں میں جتنی چاہتا ہے زیادتی کر دیتا ہے۔ تیسرا مطلب یہ ہے کہ اس نے جتنی مخلوق بنائی ہے اس میں جتنا چاہتا ہے اضافہ کرتا رہتا ہے، نئی سے نئی مخلوق، نئے سے نئے سیارے، نئی کہکشائیں، نئے حیوانات و جمادات و نباتات پیدا فرماتا رہتا ہے۔ سورۂ رحمٰن میں ہے: «‏‏‏‏كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِيْ شَاْنٍ» ‏‏‏‏ [ الرحمٰن: ۲۹ ] ہر دن وہ ایک (نئی) شان میں ہے۔ اس میں یہود کا رد ہے، جو کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آدم علیہ السلام کی پیدائش کے بعد ساتویں دن فارغ ہو گیا، اب وہ مزید کوئی چیز پیدا نہیں کرتا۔

اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ: اِنَّ عموماً پہلی بات کی علت بیان کرنے کے لیے ہوتا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ خلق میں اپنی مرضی کے مطابق اضافہ کرتا ہے اور زمین و آسمان کی اور پروں والے پیغام رساں فرشتوں کی پیدائش فرماتا ہے، کیونکہ وہ ہر چیز پر پوری طرح قارد ہے۔ وہاں کسی بھی ارادے کے پورا کرنے میں کسی عجز کا تصور نہیں ہے۔



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.