(آیت 52) ➊ وَ قَالُوْۤا اٰمَنَّا بِهٖ: یعنی جب آخرت کے عذاب کو دیکھیں گے تو کہیں گے، ہم اللہ پر ایمان لے آئے جو اکیلا ہے، جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا: «فَلَمَّا رَاَوْا بَاْسَنَا قَالُوْۤا اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَحْدَهٗ وَ كَفَرْنَا بِمَا كُنَّا بِهٖ مُشْرِكِيْنَ»[ المؤمن: ۸۴ ]”پھر جب انھوں نے ہمارا عذاب دیکھا تو انھوں نے کہا ہم اس اکیلے اللہ پر ایمان لائے اور ہم نے ان کا انکار کیا جنھیں ہم اس کے ساتھ شریک ٹھہرانے والے تھے۔“ اور فرمایا: «وَ لَوْ تَرٰۤى اِذِ الْمُجْرِمُوْنَ نَاكِسُوْا رُءُوْسِهِمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ رَبَّنَاۤ اَبْصَرْنَا وَ سَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا اِنَّا مُوْقِنُوْنَ»[ السجدۃ: ۱۲ ]”اور کاش! تو دیکھے جب مجرم لوگ اپنے رب کے پاس اپنے سر جھکائے ہوں گے اے ہمارے رب! ہم نے دیکھ لیا اور ہم نے سن لیا، پس ہمیں واپس بھیج کہ ہم نیک عمل کریں، بے شک ہم یقین کرنے والے ہیں۔“
➋ وَ اَنّٰى لَهُمُ التَّنَاوُشُ مِنْ مَّكَانٍۭ بَعِيْدٍ: ” التَّنَاوُشُ “ آسانی سے کسی چیز کو حاصل کر لینا، لے لینا۔ یعنی ایمان لانے کی جگہ دنیا تھی جو بہت دور رہ گئی، اب اتنی دور جگہ سے ایمان کو حاصل کرنا کیسے ممکن ہے؟ عذاب دیکھ لینے کے بعد ایمان لانے سے تو کچھ حاصل نہیں، اس کا وقت تو سکرات موت سے پہلے تھا۔ ابن عمر رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ إِنَّ اللّٰهَ يَقْبَلُ تَوْبَةَ الْعَبْدِ مَا لَمْ يُغَرْغِرْ ][ ترمذي، الدعوات، باب إن اللّٰہ یقبل توبۃ العبد…: ۳۵۳۷، قال الألباني حسن ]”اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ قبول کرتا ہے جب تک موت کے وقت اس کا گلا نہ بولنے لگے۔“