(آیت 49) ➊ قُلْ جَآءَ الْحَقُّ: یہ چوتھی تلقین ہے کہ انھیں واضح کر دیں کہ ان کا باطل بہت جلد ختم ہو جائے گا اور اس کا نام و نشان تک نہیں رہے گا۔ دوسری جگہ فرمایا: «وَ قُلْ جَآءَ الْحَقُّ وَ زَهَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا»[ بني إسرائیل: ۸۱ ]”اور کہہ دے حق آگیا اور باطل مٹ گیا، بے شک باطل ہمیشہ سے مٹنے والا تھا۔“
➋ وَ مَا يُبْدِئُ الْبَاطِلُ وَ مَا يُعِيْدُ: ”أَبْدَأَ يُبْدِءُ إِبْدَاءً“(افعال) کوئی کام شروع میں کرنا اور اعادہ کا معنی ہے اسے دوبارہ کرنا۔ ہر زندہ شخص ان دونوں سے خالی نہیں ہوتا، یا وہ کوئی کام ابتداءً کرتا ہے یا دوبارہ، البتہ مُردہ ان میں سے کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ یہ ایک مقولہ ہے جو عرب کسی شخص یا قوم کے نیست و نابود ہونے پر استعمال کرتے ہیں: ”إِنَّهُ مَا يُبْدِئُ وَمَا يُعِيْدُ“ یعنی وہ بالکل مٹ گیا، اس کا نشان بھی باقی نہ رہا۔
➌ اس آیت کے نزول کے تھوڑا عرصہ بعد ہی یہ پیش گوئی سچی ہو گئی۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے اور بیت اللہ کے اردگرد تین سو ساٹھ بت نصب تھے، تو آپ ہر بت کو ایک لکڑی کے ساتھ، جو آپ کے ہاتھ میں تھی، ٹھوکر مارتے جاتے اور کہتے تھے: «جَآءَ الْحَقُّ وَ زَهَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا» اور «جَآءَ الْحَقُّ وَ مَا يُبْدِئُ الْبَاطِلُ وَ مَا يُعِيْدُ» [ بخاري، التفسیر، باب: «و قل جاء الحق و زھق الباطل» : ۴۷۲۰ ]